Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مہسا امینی کی ہلاکت: ایران میں 60 خواتین سمیت 700 سے زائد مظاہرین گرفتار

دیگر ممالک میں بھی مہسا امینی کی ہلاکت کے خلاف مظاہرے کیے گئے۔ فوٹو: اے ایف پی
ایران میں دوران حراست خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کے واقعے کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں صرف ایک صوبے سے 700 سے زائد مظاہرین کو گرفتار کیا گیا ہے۔
عرب نیوز نے ایران کی مقامی تسنیم نیوز ایجنسی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ صوبہ گیلان کے پولیس چیف جنرل عزیز اللہ مالیکی نے اعلان کیا ہے کہ ’ہنگامہ آرائی کرنے والے 739 افراد کو حراست میں لیا گیا جن میں 60 خواتین بھی شامل ہیں۔‘
علاوہ ازیں سنیچر کو ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے کہا ہے کہ مہسا امینی کی ہلاکت کے خلاف ہونے والوں مظاہروں سے ’فیصلہ کن‘ طور پر نمٹنا ہوگا۔
صدر ابراہیم رئیسی نے کہا کہ ’ملک کی سکیورٹی اور امن کی مخالفت کرنے والوں کے ساتھ فیصلہ کن طور پر نمٹنا چاہیے۔‘
ایران کے مقامی میڈیا نے صدر کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ابراہیم رئیسی نے مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کے دوران ہلاک ہونے والے ایرانی رضاکار فورس (بسیج) کے اہلکار کے اہل خانہ سے فون پر بات کی ہے۔
صدر نے بات چیت کے دوران اس بات پر زور دیا کہ مظاہروں اور امن عامہ و سکیورٹی کو خراب کرنے کے درمیان فرق کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے ایران میں ہونے والوں مظاہروں کو فسادات قرار دیا ہے۔
ایران کے سرکاری میڈیا کے دعوے کے مطابق ایک ہفتہ قبل 22 سالہ کرد خاتون مہسا امینی کی ایرانی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد سے ملک کے اکتیس صوبوں میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے جن میں اب تک 35 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
دوسری جانب ناروے میں قائم تنظیم ’ایران ہیومن رائٹس‘ کے مطابق حکومت مخالف مظاہروں میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں اب تک کم سے کم 50 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

ایران کے مختلف شہروں میں حکومت کی حمایت یافتہ ریلیاں نکالی گئیں۔ فوٹو: اے ایف پی

تنظیم نے کہا ہے کہ تازہ ترین 50 ہلاکتوں میں چھ افراد شامل ہیں جو جمعرات کی رات شمالی گیلان صوبے کے قصبے ریزوانشاحر میں سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے مارے گئے جبکہ دیگر اموات بابول اور امول میں ریکارڈ کی گئی ہیں۔
ایران کی مقامی نیوز ایجنسی نے سنیچر کو کہا کہ شمالی صوبہ گیلان میں 739 مظاہرین کو گرفتار کیا گیا ہے۔
ایران کی  فوج نے بدامنی پھیلانے کے ذمہ دار ’دشمنوں‘ کا مقابلہ کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔
حالیہ مظاہروں میں خواتین نے نمایاں کردار ادا  کرتے ہوئے اپنے حجاب کو لہرایا اور نذر آتش بھی کیا۔ چند خواتین نے غصے کا اظہار کرتے ہوئے اپنے بال کاٹ کر بھی احتجاج ریکاڑ کروایا ہے۔
مظاہرین نے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی برطرفی کا مطالبہ کیا ہے۔
حکومت مخالف مظاہروں کا مقابلہ کرنے کے لیے جمعے کو ایران کے متعدد شہروں میں سرکاری طور پر منظم ریلیاں نکالی گئیں جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔
تہران، اہواز، اصفہان، قم اور تبریز سمیت دیگر شہروں میں حکومت کی حمایت یافتہ جوابی ریلیوں میں ہزاروں افراد حجاب اور قدامت پسند ڈریس کوڈ کی حمایت میں سڑکوں پر نکلے تھے۔

شیئر: