Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’پولیس نے مہسا کے بھائی پر مِرچوں کا سپرے کیا اور مہسا کو زبردستی لے گئی‘

مہسا کی موت ایران میں احتجاجی تحریک کے لیے چنگاری بن گئی ہے (فوٹو: عرب نیوز)
پولیس کی حراست میں ہلاک ہونے والی ایرانی خاتون مہسا امینی کے کزن نے ایک خصوصی انٹرویو میں انکشاف کیا ہے کہ ’22 سالہ خاتون کو موت سے قبل نفسیاتی تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔‘
عرب نیوز کے مطابق اس سانحے کے بعد ایران میں ملک گیر مظاہرے شروع ہو گئے۔ یہ مظاہرے ایرانی عوام کے غصے کی آواز بن چکے ہیں۔
عراق میں مقیم ایک سیاسی کارکن اور کرد جنگجو عرفان مرتضائی نے سکائی نیوز کو بتایا کہ ’ایرانی عوام نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ تہران حکومت کو اس سانحے پر مناسب جواب دے۔‘
عرفان مرتضائی نے بتایا کہ ’مہسا امینی تہران میں اپنی فیملی کے ساتھ خریداری کر رہی تھیں جب ان کا وہاں موجود خصوصی فورس کے ساتھ  سامنا ہوا۔ پولیس نے مہسا کو دیکھا کہ ان کا حجاب درست نہیں ہے۔‘
اس موقع پر موجود مہسا کے بھائی اشکان نے پولیس کو سمجھانے کی کوشش کی کہ ’وہ تہران میں اجنبی ہیں جس کی وجہ سے اس کا خیال نہیں رہا، لہٰذا براہ کرم آپ اس بات کو ذہن میں رکھیں اور میری بہن کو مت لے جائیں۔‘
پولیس افسران نے مہسا کے بھائی کو انتباہ کرتے ہوئے ان کے چہرے پر مرچوں کا سپرے بھی کیا اور مہسا کو زبردستی وین میں بٹھا کر مخصوص پولیس سٹیشن لے گئے۔

ایران میں ملک گیر مظاہرے عوامی غصے کی آواز بن چکے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

عرفان مرتضائی نے بتایا ہے کہ ’اس افسوسناک واقعے میں مہسا امینی کے ساتھ بدسلوکی گئی اور تشدد کیا گیا اور ان کی توہین بھی کی گئی۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’پولیس نے دوران سفر مہسا کو جسمانی اذیت پہنچائی جس کی وجہ سے وہ اپنی بینائی کھو بیٹھیں، بعد ازاں انہیں تقریبا ڈیڑھ گھنٹے میں ایمبولینس کے ذریعے مقامی ہسپتال پہنچایا گیا۔‘
’کسری ہسپتال کی رپورٹ سے واضح پتا چلتا ہے کہ مہسا کے سر میں شدید چوٹ لگنے کے باعث وہ ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی طبی لحاظ سے موت کے منہ میں جا چکی تھیں۔‘

پولیس نے مہسا کو دیکھا کہ ان کا حجاب درست نہیں ہے (فوٹو: اے ایف پی)

کرد جنگجو عرفان مرتضائی کا کہنا ہے کہ ’ان کے پورے خاندان پر حکومتی اہلکاروں کی جانب سے دباؤ ڈالا گیا کہ پولیس فورس کی جانب سے تشدد اور بدسلوکی کے دعوؤں کی سرکاری ٹی وی پر تردید کریں۔‘
عوامی افسوس اور غصے کو دیکھتے ہوئے یہ اقدامات بارآور ثابت نہیں ہوئے اور مہسا کی موت پورے ایران اور کردستان میں احتجاجی تحریک کے لیے چنگاری بن گئی ہے۔
دوسری جانب ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے کہا ہے کہ ملک کی سلامتی اور امن کو نقصان پہنچانے والوں  کے ساتھ فیصلہ کن انداز میں نمٹنا چاہیے۔
ایران کے پولیس سربراہ حسین اشتری نے بھی عوام کے لیے اپنا ایک پیغام بھیجا ہے جس میں مظاہروں کے خلاف انتباہ دیا گیا ہے۔

شیئر: