Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شارٹ سے لانگ مارچ کی شش و پنچ، ماریہ میمن کا کالم

عمران خان نے فی الحال لانگ مارچ کی کال دینے کی بات کی ہے۔ لانگ مارچ کی کال ابھی باقی ہے۔ اپنے ہر اعلان کے ساتھ ان کی طرف سے ایک ڈرانے والی تنبیہہ بھی ہوتی ہے اور پھر ایک سسپنس بھی۔
ان کے بقول ان کا اصل منصوبہ ابھی صیغہ راز میں ہے مگر اس کے خطرناک نتائج سے وہ عوام اور خواص کو آگاہ کرتے رہتے ہیں۔
ان کا زیادہ تر ہدف عوام کے بجائے خواص ہی ہیں اور اس ضمن میں پس پردہ ملاقاتوں کی تو وہ خود ’جھوٹ بولتا نہیں اور سچ بول نہیں سکتا‘ کہہ کر غیر سرکاری تصدیق بھی کر چکے ہیں۔
عمران خان چاہتے تو اصل میں یہی ہیں کہ ان کا مارچ لانگ کے بجائے شارٹ ہی ہو۔ ادھر وہ اعلان کریں اور ادھر انتخاب کا اعلان ہو جائے۔ لانگ مارچ کی کامیابی کا تعین عوام کریں گے مگر شارٹ مارچ کا انحصار تو خواص پر ہے۔ 
عمران خان کے لانگ مارچ کے مقابلے میں سامنے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ ہیں۔ ان کے ڈائیلاگ کسی پنجابی فلم کے سکرپٹ سے اٹھائے گئے ہیں۔ بڑھکوں کے ساتھ ساتھ لانگ مارچ کے شرکا کے لیے آنسو گیس کی دھمکی بھی دی جاری ہے۔
25 مئی کے تجربے کے بعد اس دفعہ دونوں فریق پھر تیار ہیں۔ آنسو گیس وغیرہ کے اعلانات عوام تک پہنچائے جارہے ہیں۔ خواص کی طرف سے بھی ڈھکے چھپے اشارے سامنے آ رہے ہیں۔
عمران خان بظاہر اب اپنے آپ کو کسی بھی قسم کے اثر سے ماورا قرار دے رہے ہیں۔ مگر ان کی طرف کال کے اعلان میں تاخیر سے اس کے برعکس صورتحال کی طرف اشارہ نظر آ رہا ہے۔ لانگ مارچ ان کی طرف سے ترکش کا آخری تیر ہے جس کو وہ اتنے آسانی سے ضائع نہیں کرنا چاہتے۔ 
لانگ مارچ میں ہر دو صورتوں میں عمران خان کے لیے رِسک ہے۔ اگر وہ لانگ مارچ نہ کریں تو اس کے بعد ان کے دعوؤں کا اثر ختم نہیں تو کم ضرور ہو جائے گا۔ ان کی سیاست کا خاصہ ان کا جارحانہ انداز ہے۔ اقتدار سے نکلنے کے بعد جس طرح انہوں نے فرنٹ فٹ پر آ کر پے در پے باؤنسر مارے اس کے نتیجے میں ان کے جہاں مخالفین کمزور پڑے وہاں ان کے حامیوں کی صفوں میں ایک نئی جان پڑ گئی۔ اب اگر وہ ٹمپریچر بڑھا کر بغیر الیکشن کے اعلان کے لانگ مارچ کا ارادہ مزید ملتوی یا منسوخ کرتے ہیں تو اس کے بعد یہی ترتیب الٹی ہو جائے گی۔
یعنی ان کے مخالفین کی ہمت بڑھے گی اور ان کے حمایتی مایوس ہوں گے۔

لانگ مارچ عمران خان کا ٹرمپ کارڈ ہے اور انہوں نے  مارچ کے بعد دھرنے کا واضح اعلان نہیں کیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

دوسری طرف اگر وہ لانگ مارچ کرتے ہیں تو ان کی کامیابی کے امکانات ان کے حمایتیوں سے زیادہ حکومت کی حکمت عملی پر منحصر ہے۔
لانگ مارچ ان کا ٹرمپ کارڈ ہے۔ ابھی تک انہوں نے مارچ کے بعد دھرنے کا واضح اعلان نہیں کیا۔ دھرنے کے بغیر مارچ کچھ دنوں کی سرگرمی ہوگی جس کو گزارنا حکومت کے لیے اتنا مشکل نہیں ہو گا۔
لانگ مارچ عمران خان کے حلیفوں کا بھی امتحان ہو گا۔ فی الحال سب سے نمایاں حلیف تو ق لیگ اور وزیر اعلیٰ  چوہدری پرویز الہی ہیں۔ ان کے فرزند مونس الٰہی کی سیاست تو واضح طور پر عمران خان کے ساتھ مگر چوہدری پرویز الہی یقیناً دل اور دماغ کے درمیان کشمکش میں ہوں گے۔
دل تو ان کا ظاہر ہے اپنے فرزند ارجمند کے ساتھ ہو گا مگر دماغ میں ان کے مفاہمتی سیاست کی گونج ہو گی۔ ابھی تک انہوں نے اپنے آپ کو عمران خان کے ساتھ زبانی کلامی وفاداری کا دم بھرتے ہوئے بھی ان کے فرنٹ فٹ والے بیانات سے علیحدہ رکھا ہے۔
پی ٹی آئی کے مرکزی رہنماؤں کی طرف سے اپنی صوبائی حکومتوں کی اجتجاجی تحریک میں عدم دلچسپی پر بیانات بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔ خصوصا پنجاب حکومت اگر وفاق کو ٹف ٹائم دینے پر تُل جائے تو چند کلومیٹر کی اسلام آباد انتظامیہ پنجاب کی مشینری کے سامنے تو شاید ٹھہر نہ سکے مگر وزیر اعلی پنجاب نے ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا۔
ان کے تعاون کے بغیر نہ صرف انتظامی بلکہ علامتی طور پر بھی لانگ مارچ کا ممکنہ اثر نہیں ہو سکے گا۔ وہ بھی یہی چاہیں گے اگر مارچ ہو بھی تو شارٹ ہی رہے۔ اور اگر بات فوری الیکشن ہی ہو تو ان کے طرف سے اس پر عمران خان کے کہنے پر ایک منٹ میں پنجاب اسمبلی توڑنے کے دعوے کی تجدید میں بھی مزید بیانات سامنے نہیں آئے۔
الیکشن کے بعد منظر نامہ کوئی بھی ہو، موجودہ حالات میں ق لیگ کے لیے سب سے بہتر سیاسی نقشہ ہے اس لیے ان کی ترجیحات واضح ہیں۔ 

عمران خان صاحب کی ترجیحات بھی واضح ہیں۔ شارٹ مارچ اور پھر الیکشن کا اعلان۔ (فوٹو: فیس بک)

عمران خان صاحب کی ترجیحات بھی واضح ہیں۔ شارٹ مارچ اور پھر الیکشن کا اعلان۔
شارٹ مارچ کی کامیابی کی گارنٹی البتہ کم ہے اس لیے لانگ مارچ کے اعلان میں تاریخ پر تاریخ دی جاری ہے۔ ان کی سیاسی پوزیشن البتہ بدستور مستحکم ہے۔
معیشت بدستور مخدوش ہے۔ ان کا بیانیہ بھی بدستور مقبول ہے۔ ہاں ان کی توقعات کی سطح بھی بلند سے بلند تر ہے خصوصا ضمنی انتخابات میں کامیابی کے بعد سے ان کے مخالفین بھی ان کی مقبولیت کا لوہا مان چکے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا لانگ مارچ سے اقتدار کی طرف ان کے تیز ترین رفتار کو بریک لگنے کا سب بنے گا؟ فی الحال قرائن یہی بتاتے ہیں کہ شارٹ مارچ کے لیے تو وہ کمر کس چکے ہیں مگر شارٹ سے لانگ مارچ تک جانے کے بارے میں ابھی تک شش و پنج کا شکار ہیں۔
 

شیئر: