Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لیبیا کشتی حادثہ، آگ بھڑکنے سے پیسے کمانے کے خواب بھی خاکستر 

ہلاک ہونے والے چاروں دوستوں کا تعلق صوابی کے گاؤں مانیری بالا سے ہے۔ فوٹو: بشکریہ اہل خانہ
’وہ چاروں دوست تھے اور چاروں کے گھروں بلکہ پورے گاؤں میں ہی غربت نے بھی چاروں طرف ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ انہیں لیبیا سے کشتی کے ذریعے اٹلی جانا تھا لیکن جونہی کشتی گہرے سمندر میں پہنچی تو انسانی سمگلروں کے دو گروپوں میں لڑائی ہوگئی۔ فائرنگ سے کشتی میں آگ بھڑک اٹھی اور ان کی لاشوں کے ساتھ ساتھ ان کے خواب بھی جل کر خاکستر ہوگئے۔‘
یہ کہنا ہے سینیٹر مشتاق احمد کا جو سینیٹ اجلاس میں اپنے علاقے ضلع صوابی کے گاؤں مانیری بالا کے رہائشی چار نوجوانوں کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کر رہے تھے جو لیبیا کشتی حادثہ میں مبینہ طور پر ہلاک ہو گئے ہیں اور اب ان کی لاشیں واپس لانے کا مسئلہ درپیش ہے۔  
انہوں نے بتایا کہ مبینہ طور پر ہلاک ہونے والوں میں شاہ فیصل ولد فضل شیر، ہارون رشید ولد روزین خان، محمد عزیر ولد غیرب زادہ اور نعیم باروخیل شامل ہیں۔  
مبینہ طور پر ہلاک ہونے والوں میں ایک 21 سالہ نوجوان شاہ فیصل بھی شامل ہے۔ شاہ فیصل اور دیگر نوجوانوں کے والدین تو غم کی شدت سے اس قدر نڈھال ہیں کہ بات کرنے کے قابل بھی نہیں تاہم نوجوان شاہ فیصل کے ماموں محبوب عالم نے اردو نیوز کو تفصیلات سے آگاہ کیا۔ 
ان کے مطابق ’ان نوجوانوں نے جونہی ہوش سنبھالا تو اپنے اہل خانہ کو غربت کی چکی سے نکالنے کے منصوبے بنانا شروع کر دیے۔ اسی منصوبہ بندی میں وہ کسی ایجنٹ کے ہتھے چڑھے اور نو، نو لاکھ روپے دے کر لیبیا پہنچ گئے جہاں سے انھیں کشتی کے ذریعے اٹلی جانا تھا کہ یہ حادثہ پیش آ گیا۔‘  
21 سالہ شاہ فیصل کے ماموں محبوب عالم نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’میرا بھانجا مزدوری کے لیے چار ماہ قبل لیبیا گیا تھا جہاں اس کے ساتھ صوابی گاؤں سے دس نوجوان اور بھی موجود تھے۔ ان میں سے چار نے وہاں سے یورپ جانے کا منصوبہ بنایا۔‘

آگ بھڑکنے کا حادثہ لیبیا سے اٹلی جانے والی کشتی میں پیش آیا۔ فوٹو: بشکریہ اہل خانہ

’صوابی سے  لیبیا جانے کے لیے نو لاکھ روپے دیے تھے مگر تین ماہ بعد  شاہ فیصل نے اپنے والد کو کال کر کے مزید 12 لاکھ روپے مانگے جس پر اس کے والد نے انکار کیا۔ بیٹے کے اصرار نے والد کو قرض لینے پرمجبور کیا اور بارہ لاکھ روپے مزید لیبیا بھجوا دیئے۔‘  
شاہ فیصل کے ماموں کے مطابق میرے بھانجے کی عمر 21 سال تھی مگر وہ بڑے بڑے خواب دیکھتا تھا اور اپنے گھر والوں سے کہتا تھا کہ میں پیسے کما کر واپس آؤں گا اور اپنا کاروبار شروع کروں گا۔ 
اس حوالے سے اردو نیوز نے تریپولی میں پاکستانی سفارت خانے کے ترجمان مسعود احمد سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ سفارت خانہ اس حادثے میں مبینہ طور پر ہلاک ہونے والے نوجوانوں کی میتیں پاکستان واپس بھیجنے کے لیے اقدامات کر رہا ہے لیکن اس سے پہلے ان کی شناخت کا مسئلہ درپش ہے۔  
ان کے مطابق یہ نوجوان پاکستان سے غیر قانونی طور پر دبئی اور قاہرہ کے راستے لیبیا پہنچتے ہیں، حادثے کے وقت یہ لوگ تریپولی سے 175 کلومیٹر دور شبراتا شہر میں تھے جہاں سے وہ کشی میں سوار ہوئے۔
’ہماری طلاع کے مطابق کشتی میں 200 افراد سوار تھے جن میں پاکستانی، انڈین، سری لنکن، بنگلا دیشی اور افریقی ممالک کے باشندے شامل تھے۔‘ 
حادثے کی تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب کشتی گہرے پانی میں پہنچی تو انسانی سمگلروں کے دو گروپوں میں لڑائی ہو گئی اور ایک دوسرے پر فائرنگ کی۔
’جس کشتی میں یہ لوگ سوار تھے اس میں پٹرول رکھا ہوا تھا جس میں آگ بھڑک اٹھی۔ کچھ لوگ جھلس کر مر گئے، کچھ نے سمندر میں چھلانگ لگا دی۔ سمندر میں ابھی بھی نعشوں کی تلاش جاری ہے۔‘  

حکام کو نعشوں کی شناخت کا مسئلہ درپیش ہے۔ فوٹو: بشکریہ اہل خانہ

ترجمان مسعود احمد نے بتایا کہ اب تک صرف 15 نعشیں ملی ہیں جو مکمل طور پر جلی ہوئی ہیں، کوئی بھی ان کی شناخت نہیں کر سکتا کیونکہ وہ کسی صورت بھی دیکھ کر پہچانے جانے کے قابل نہیں ہیں۔
’ابھی ہم نعشیں اٹھا کر بھیج دیں لیکن والدین یہ کہہ دیں کہ یہ ان کے بچے نہیں ہیں تو یہ ایک نیا مسئلہ بن جائے گا۔ اس لیے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ان کا ڈی این اے کرایا جائے گا لیکن وہ بھی لیبیا میں ممکن نہیں۔ اس کے لیے ریڈ کراس انھیں تیونس منتقل کرے گا اور ہم والدین کے ڈی این اے کے نمونہ جات منگوانے کی کوشش کریں گے۔‘  
انھوں نے کہا کہ انسانی سمگلروں نے ترکی اور ایران کے درمیان بارڈر پر تار لگائے جانے کے بعد لیبیا کو اپنا مرکز بنا لیا ہے، ہماری کوشش ہے کہ نوجوانوں کو پاکستان سے آنے سے روکا جائے کیونکہ یہ اتنا بڑا اور گہرا سمندر ہے کہ یہاں سے بچ کر یورپ پہنچنے والوں کی تعداد کم اور راستے میں مرنے والوں کی زیادہ ہے۔  
لیبیا سے اٹلی جانے کی کوشش میں ہلاک ہونے والے یہ پہلے پاکستانی نہیں بلکہ اس سے پہلے فروری 2018 میں بھی لیبیا کشتی حادثے میں ایک درجن سے زائد پاکستانی ہلاک ہوئے تھے جن میں ایک پورا خاندان میاں بیوی اور دو بچوں سمیت ڈوب کر ہلاک ہو گیا تھا۔ 

شیئر: