Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی پورٹ پر کھڑی گاڑیاں حکومتی پالیسی کی نذر، ’ریلیف دیا جائے‘

وہیکل سیکشن کے ایک سینیئر افسر کے مطابق تقریباً 785 گاڑیاں اس وقت پورٹ پر موجود ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
بہتر روزگار کی تلاش میں جاپان جانے والے محمد عمر کا کہنا ہے کہ انہوں نے گھر کے استعمال کے لیے 660 سی سی کی گاڑی خرید کر پاکستان بھیجی تاہم وہ تین مہینوں سے پورٹ سے کلیئر نہیں ہوئی۔ ’کلیئرنگ ایجنٹ کہتا ہے کہ پاکستان میں امپورٹ پالیسی تبدیل ہوئی ہے اور جب تک وفاقی حکومت پالیسی واضح نہیں کرتی گاڑی پورٹ سے نہیں نکالی جا سکتی ہے۔‘
وفاقی حکومت کے بدلتے فیصلوں کی وجہ سے محمد عمر کی طرح بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
پاکستان میں اپنے رشتہ داروں کو گاڑی بھیجنے والے محمد عمر اور ان جیسے سینکڑوں اوورسیز پاکستانی وفاقی حکومت کی توجہ کے منتظر ہیں۔ سابق مشیر خزانہ مفتاع اسماعیل کے دور میں لگژری آئٹمز کی درآمد پر پابندی عائد کی گئی تھی جس کے بعد سے اب تک 700 سے زائد گاڑیاں کراچی  کی بندرگاہ پر موجود ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ان گاڑیوں کے پورٹ پر کھڑے رہنے کی مد میں ڈیمیرج بڑھتا جا رہا ہے۔
 کراچی بندرگاہ وہیکل سیکشن کے ایک سینیئر افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ تقریباً 785 گاڑیاں اس وقت پورٹ پر موجود ہیں۔ رواں سال 19 مئی کو وفاقی حکومت کی جانب سے لگژری آئٹمز کی درآمد پر پابندی لگائی گئی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ ’گاڑیاں حال ہی میں جس جہاز کے ذریعے پاکستان پہنچی ہیں وہ جہاز 24 جولائی کو کراچی کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا تھا جبکہ شیڈول کے مطابق اس جہاز کو 28 جون کو آنا تھا لیکن موسم کی خرابی کی وجہ سے اس جہاز کے پہنچنے میں تاخیر ہوئی۔‘
وہیکل افسر کا مزید کہنا تھا کہ پورٹ پر کھڑی گاڑیوں کے کلیئر ہونے کے حوالے سے ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔
’یہ معاملہ وفاقی کابینہ کے سپرد ہے۔ انہوں نے فیصلہ کرنا ہے کہ سرچارج اور آر ڈی دونوں وصول کرنا ہے یا پھر کسی ایک میں چھوٹ دینی ہے۔ ہمارے پاس جو بھی آرڈرز آئیں گے ہم اس کے تحت گاڑیوں کو کلیئر کریں گے۔‘

بندرگاہ پر گاڑیاں تقریباً تین مہینے سے موجود ہیں۔ (فوٹو: اردو نیوز)

چیئرمین آٹوموٹیو ٹریڈرز اینڈ امپورٹرز ایسوسی ایشن کراچی کے چیئرمین محمد کامران خان  نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ رواں سال 19 اگست کو وفاقی حکومت نے پابندی تو ہٹائی ہے لیکن اس کے ساتھ 100 فیصد سرچارج لگایا ہے۔ اس کے بعد 22 اگست کو ایک ایس آر او جاری کیا گیا ہے جس میں ریگولیٹری ڈیوٹی (آر ڈی ) 100 فیصد مزید لگا دی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 100 فیصد سرچارج کے بعد ریگولیٹری ڈیوٹی لگا دی ہے جس کے بعد گاڑی کی لاگت پہلے کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ گئی ہے۔
محمد کامران کا کہنا ہے کہ ’سابق مشیر خرانہ مفتاع اسماعیل سے طے ہوا تھا کہ  سرچارج لے لیں اور آر ڈی نہ لیں۔ مشیر خزانہ نے یہ معاملہ کیبنٹ میں بھیجنے کا کہا تھا کہ وفاقی وزیر تبدیل ہوگئے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوگا تو تب ہی یہ معاملہ حل ہوگا۔

ہر گزرتے دن کے ساتھ گاڑیوں کے پورٹ پر کھڑے رہنے کی مد میں ڈیمیرج بڑھتا جا رہا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

کراچی پورٹ وہیکل سیکشن افسر نے گاڑیوں کے پورٹ پر رہنے کے حوالے سے سوال کے جواب میں بتایا کہ ایک اندازے کے مطابق ایک گاڑی کا پورٹ پر کھڑے رہنے کا ڈیمیرج ایک ہفتے کا 15 سے 20 ہزار ہے۔ اب یہ گاڑیاں تقریباً 3 مہینے سے یہاں موجود ہیں تو اندازہ لگائیں ڈیمیرج کی مد میں کتنی ادائیگی کرنی ہوگی۔
کراچی بندرگاہ وہیکل افسر کے مطابق پورٹ پر کھڑی گاڑیوں کے کلیئر ہونے کے حوالے سے ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔ یہ معاملہ وفاقی کابینہ کے سپرد ہے۔ انہوں نے فیصلہ کرنا ہے کہ سرچارج اور آر ڈی دونوں وصول کرنا ہے یا پھر کسی ایک میں چھوٹ دینی ہے۔‘ ہمارے پاس جو بھی آرڈرز آئیں گے ہم اس کے تحت گاڑیوں کو کلیئر کریں گے۔
موٹر ڈیلرز کے مطابق ’اس پابندی سے قبل 660 سی سی کی گاڑی پر تقریباً 9 لاکھ روپے کی ڈیوٹی تھی۔ لیکن اب نئے ٹیکسز لگانے کے بعد آر ڈی کے ساتھ 19 لاکھ اور اگر سرچارج اور آر ڈی دونوں لگتے ہیں تو یہ رقم تقریباً 28 لاکھ روپے بنتی ہے۔ اس میں گاڑی کی خریداری کی رقم تقریباً 10 لاکھ روپے شامل کرلی جائے تو ایک 660 سی سی کی ری کنڈیشن گاڑی پاکستان میں 38 لاکھ روپے کی پڑتی ہے اور ڈیمیرج کی مد میں ادائیگی الگ ہے جبکہ یہی گاڑی مارکیٹ ویلیو کے حساب سے 25 سے 28 لاکھ روپے میں دستیاب ہے۔‘
محمد عمر نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی گفٹ سکیم کے تحت بھیجی گئی گاڑیوں پر عائد ڈیوٹیوں میں ریلیف دیا جائے تاکہ انہیں اس سکیم سے فائدہ پہنچ سکے۔

شیئر: