Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب حکومت کی نئی لگژری گاڑیاں وزرا کے لیے یا فلڈ ریلیف کے لیے؟

پنجاب کی حکومت نے حال ہی میں 40 نئی گاڑیاں خریدنے کی منظوری دی (فوٹو: ٹوئٹر)
آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی حکومت نے حال ہی میں 40 نئی گاڑیاں خریدنے کی منظوری دی ہے۔
سرکاری دستاویزات کے مطابق جن گاڑیوں کو خریدنے کی منظوری دی گئی ہے ان میں چار ٹویوٹا فارچونر ایس یو ویز، تین ریوو ڈبل کیبن جب کہ 33 کرولا الٹس گاڑیاں شامل ہیں۔ 
ان گاڑیوں کو خریدنے کے لیے مجموعی طور پر 30 کروڑ روپے سے زائد کی رقم مختص کی گئی ہے۔ مقامی میڈیا میں اس خبر کے نشر ہونے کے بعد حکومت نے ان گاڑیوں کی خریداری کا دفاع کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ گاڑیاں سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے استعمال ہوں گی۔‘
دوسری طرف سوشل میڈیا پر تنقید کے بعد مزید 93 گاڑیوں کی خریداری کھٹائی میں پڑ گئی ہے۔ اردو نیوز کو دستیاب سرکاری دستاویزات کے مطابق محکمہ ریونیو نے ایک اور سمری وزیراعلٰی ہاؤس بھیجی ہے جس میں 93  نئی گاڑیاں خریدنے کے لیے حکومت سے رقم جاری کرنے کی سفارش کی گئی ہے، تاہم اس سمری کو واپس بھیج دیا گیا ہے۔ 
جس سمری پر اعتراض لگایا گیا ہے اس کی تفصیل کے مطابق محکمہ ریونیو نے صوبہ بھر کے ڈپٹی کمشنرز کے لیے 40 فارچونرز مانگی ہیں۔ اسی طرح ممبرز بورڈ آف ریوینیو کے لیے 12 کرولا ایکس اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرز ریونیو کے لیے 40 ریوو ڈبل کیبن مانگے گئے ہیں۔ سمری کے مطابق تمام گاڑیوں کی لاگت ایک ارب روپے آئے گی۔ 
اردو نیوز کو محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی پنجاب کے ایک اعلٰی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’پنجاب حکومت کے ٹرانسپورٹ پول میں اس وقت گاڑیوں کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ جو گاڑیاں پہلے سے موجود ہیں ان کی دیکھ بھال کی لاگت ان کی قیمت سے زیادہ ہو چکی ہے۔ اس لیے نئی گاڑیوں کی سمری بھیجی گئی۔‘

سوشل میڈیا پر تنقید کے بعد مزید 93 گاڑیوں کی خریداری کھٹائی میں پڑ گئی ہے (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

ان کے مطابق ’40 گاڑیاں جن میں زیادہ تر وزیراعلٰی ہاؤس میں استعمال ہونی ہیں ان کی منظوری تو دی گئی ہے جب کہ دوسری گاڑیوں کی منظوری اب کھٹائی میں پڑ گئی ہے، تاہم میرے خیال میں اب یکمشت کے بجائے تعداد کم کرکے مختلف مراحل میں یہ منظوری لی جائے گی۔‘
اس حوالے سے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے صوبائی وزیر قانون راجا بشارت نے بتایا کہ ’ان گاڑیوں کی خریداری سے متعلق غلط طریقے سے خبر چلائی جا رہی ہے کہ یہ عیاشی کے لیے خریدی جا رہی ہیں۔ ایسا نہیں ہے اور ان گاڑیوں میں بیشتر ایسی ہیں جو کہ ریلیف ورک میں استعمال ہوں گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ایک اسسٹنٹ کمشنر کوٹ ادو کی گاڑی ہے جو کہ ایک حادثے میں تباہ ہوگئی تھی۔ اب وہاں سیلاب ہے تو کیا ان کی ضرورت پوری نہ کی جائے؟
انہوں نے مزید بتایا کہ ’یہ گاڑیاں اضافی نہیں ہیں بلکہ پہلے ہی سے سرکاری سکیم کے تحت جس طرح گاڑیوں کو سسٹم کا حصہ بنایا جاتا ہے بالکل ویسے ہی ہے۔‘
’یہ تاثر غلط ہے کہ یہ حکومت ضرورت کے بغیر گاڑیوں کی خریداری کر رہی ہے۔ ابھی کچھ گاڑیوں کی گرانٹ منظور ہوئی ہے کچھ عرصے میں مزید کی بھی منظوری ہوگی۔‘ 

شیئر: