Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ضمنی انتخابات: کیا پی ڈی ایم عمران خان کو روک پائے گی؟

17 جولائی کو پنجاب کی 20 صوبائی نشستوں پر جو انتخابات ہوئے تھے ان میں سے پی ٹی آئی نے 15 نشستیں جیتی تھیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں ایک مرتبہ پھر 16 اکتوبر کو ضمنی انتخابات کا میدان سج رہا ہے۔ ملک بھر میں قومی اسمبلی کی نو نشستوں پر انتخابات ہو رہے ہیں۔ یہ وہ نشستیں ہیں جن پر سپیکر قومی اسمبلی نے تحریک انصاف کے 11 اراکین کے استعفے منظور کیے تھے۔ ایک نشست پر عدالتی حکم امتناعی کے سبب انتخاب نہیں ہو رہا۔
پہلے یہ الیکشن 25 ستمبر کو ہونا تھا لیکن سیلاب کے باعث انہیں ملتوی کر دیا گیا اور نئی تاریخ دی گئی تھی۔
اگر پنجاب پر نظر دوڑائیں تو قومی اسمبلی کے جن تین حلقوں میں انتخابات ہو رہے ہیں ان میں ملتان کا حلقہ این اے 157، فیصل آباد کا حلقہ این اے 108 اور ننکانہ صاحب کا حلقہ این اے 118 شامل ہیں۔ ویسے تو ان تینوں حلقوں پر ہی مقابلہ سخت ہے لیکن سب سے زیادہ کانٹے کا مقابلہ ملتان کی سیٹ پر متوقع ہے۔
یہ نشست شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی نے خالی کی تھی۔ اب اس پر ان کی بیٹی مہر بانو قریشی پاکستان تحریک انصاف کی ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہی ہیں، جبکہ ان کے مدمقابل سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحب زادے علی موسیٰ گیلانی ہیں۔
فیصل آباد کے حلقے سے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کے مقابلے میں مسلم لیگ ن کے عابد شیر علی ہیں۔ اس حلقے سے سنہ 2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے فرخ حبیب ایک ہزار سے زائد ووٹوں کی برتری سے جیتے تھے جبکہ 2013 میں وہ ہار گئے تھے۔

پنجاب کی تینوں صوبائی نشستیں سنہ 2018 کے انتخابات میں مسلم لیگ ن جیتی تھی۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ننکانہ صاحب کے حلقے میں بھی سابق وزیراعظم عمران خان خود الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ان کے مقابلے میں مسلم لیگ ن کی ٹکٹ پر رائے شذرہ منصب امیدوار ہیں۔ یہ نشست سنہ 2018 میں تحریک انصاف کے بریگیڈیئر اعجاز شاہ نے جیتی تھی۔
پنجاب کے جن تین صوبائی حلقوں میں الیکشن ہو رہا ہے ان میں پی پی 139 شیخوپورہ، پی پی 241 بہاولنگر اور پی پی 209 خانیوال شامل ہیں۔
شیخوپورہ کی نشست سے مسلم لیگ ن کے ایم پی اے جلیل شرقپوری نے وزیراعلٰی کے انتخاب سے ایک روز قبل استعفی دے دیا تھا۔ اب اس نشست پر پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر سجادہ نشین محمد ابوبکر شرقپوری جبکہ ن لیگ کی ٹکٹ پر سابق رکن صوبائی اسمبلی چوہدری افتخار احمد بھنگو آمنے سامنے ہیں۔
بہاولنگر کی سیٹ مسلم لیگ ن کے ایم پی اے کاشف محمود کی جعلی ڈگری کے سبب خالی ہوئی تھی۔ اس حلقے سے ن لیگ کے امیدوار امان اللہ ستار جبکہ پی ٹی آئی کے امیدوار ملک محمد مظفر خان ہیں۔ اس مقابلے کو کانٹے دار گردانا جا رہا ہے۔
خانیوال کے حلقے میں پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے فیصل خان نیازی جبکہ ن لیگ کی طرف سے ضیا الرحمن مدمقابل ہیں۔ سنہ 2018 میں فیصل خان نیازی مسلم لیگ ن کی ٹکٹ سے الیکشن لڑے تھے اور جیت گئے تھے، بعدازاں اپنے استعفے کے بعد اب پی ٹی آئی کے ٹکٹ سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔
خیال رہے کہ پنجاب کی تینوں صوبائی نشستیں سنہ 2018 کے انتخابات میں مسلم لیگ ن جیتی تھی۔ قومی اور صوبائی حلقوں پر ہونے والے یہ ضمنی انتخابات اس لیے بھی اہم ہیں کیونکہ اس سے قبل رواں برس 17 جولائی کو پنجاب کی 20 صوبائی نشستوں پر جو انتخابات ہوئے تھے ان میں سے پاکستان تحریک انصاف نے 15 نشستیں جیت لی تھیں۔

ملتان کے حلقہ این اے 157 سے  مہر بانو قریشی پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہی ہیں۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

ن لیگ نے اپنی ہار کے دفاع میں یہ وجہ بتائی تھی کہ امیدواروں کا چناؤ درست نہیں تھا کیونکہ ’معاہدے‘ کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے منحرف اراکین کو ہی ٹکٹ دیا جانا تھا۔ ان ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن اور اتحادیوں پر ایسی کوئی قدغن نہیں ہے۔

این اے 237 اور این اے 239 میں سخت مقابلے کی توقع

دوسری جانب اتوار کو ساحلی شہر کراچی کے دو حلقوں میں بھی ضمنی انتخابات کا میدان سجے گا۔
این اے 237 اور این اے 239 میں سخت مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے، اس ضمن میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تمام تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔
این اے 237 ملیر ماضی میں پیپلز پارٹی کا مضبوط حلقہ رہا ہے لیکن سندھ کے شہری علاقوں میں مقبول جماعت ایم کیو ایم بھی اس حلقے سے کامیاب ہوتی رہی ہے۔ اس بار ضمنی انتخاب کے موقع پر اس حلقے میں پی ٹی آئی اور پی پی پی کے درمیان سخت مقابلے کی امید کی جا رہی ہے۔
حلقہ این اے 237 میں 11 امیدوار ہیں جن میں پی ٹی آئی کے عمران خان، پی پی پی کے حکیم بلوچ، ٹی ایل پی کے سمیع اللہ خان، پی ایس پی کے عامر شیخانی اور جے یو آئی کے محمد اسماعیل کے علاوہ چھ آزاد امیدوار مقابلے میں ہیں۔
اس حلقے میں ووٹرز کی تعداد دو لاکھ 94 ہزار699 ہے۔ 194  پولنگ سٹیشنز بنائے گئے ہیں جن میں 748 پولنگ بوتھ ہیں۔
سنہ 2018 کے عام انتخابات میں این اے 237 سے پی ٹی آئی کے جمیل احمد خان نے 33 ہزار 280 ووٹ لے کر یہ سیٹ پانے نام کی تھی۔ دوسرے نمبر پر پی پی پی کے حکیم بلوچ نے 31 ہزار907 جبکہ مسلم لیگ ن کے زین العابدین انصاری نے 14 ہزار 99 ووٹ لیے تھے۔

این اے 239 میں اس بار پی ٹی آئی، ایم کیو ایم، ٹی ایل پی اور مہاجر قومی موومنٹ کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

این اے 239 ایم کیو ایم کی مضبوط سیٹ رہی ہے لیکن اس بار ایم کیو ایم کے کمزور پارٹی سسٹم اور آپسی اختلافات کی وجہ سے پی ٹی آئی کو اس حلقے میں مضبوط تصور کیا جا رہا ہے۔ اس بار پی ٹی آئی، ایم کیو ایم، ٹی ایل پی اور مہاجر قومی موومنٹ کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے۔
دوسری جانب حلقہ این اے 239میں 22 امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہے جن میں پی ٹی آئی کے عمران خان، ایم کیو ایم پاکستان کے نیئر علی، مہاجر قومی موومنٹ کے خرم منصور، پی پی پی کے عمران حیدر عابدی، پی ایم اے کے قیصر اقبال میوہ، جے یو آئی کے محمد رمضان، ٹی ایل پی کے محمد یاسین، پی ایس پی کے شارق جمیل جبکہ 14 آزاد امیدوار میدان میں ہیں۔
اس حلقے میں ووٹرز کی کل تعداد پانچ لاکھ 81 ہزار888 ہے۔ 330 پولنگ سٹیشنوں میں ایک ہزار 320 پولنگ بوتھ بنائے گئے ہیں۔
سنہ 2018 کے عام انتخابات میں این اے 239 سے پی ٹی آئی کے اکرم چیمہ نے 69 ہزار147 ووٹ حاصل کیے تھے۔ دوسرے نمبر پر ایم کیو ایم کے سہیل منصور خواجہ نے 68 ہزار 811 ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ ٹی ایل پی کے زمان جعفری نے 30 ہزار 109 ووٹ لیے تھے۔

شیئر: