Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خیبرپختونخوا میں ضمنی انتخابات، کیا صوبہ اب بھی پی ٹی آئی کا گڑھ ہے؟

تجزیہ کار شمیم شاہد کے مطابق ’عمران خان کے مولانا فضل الرحمان کے خلاف غیرمناسب الفاظ کی وجہ سے جمیعت علمائے اسلام کے ووٹرز میں غصہ پایا جاتا ہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
خیبر پختونخوا میں قومی اسمبلی کی تین خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات کا انعقاد کل 16 اکتوبر کو ہو گا۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اراکین قومی اسمبلی کے استعفوں کے بعد خیبرپختونخوا کے تین حلقوں میں بھی ضمنی انتخابات کا شیڈول جاری ہوا، ان میں پشاور کا حلقہ این اے 31، مردان کا این اے 22 اور ضلع چارسدہ کا حلقہ این اے 24 شامل ہیں۔
خیبر پختونخوا کے تینوں حلقوں میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان خود الیکشن لڑ رہے ہیں، جبکہ ان کے مدمقابل پی ڈی ایم نے تین امیدوار کھڑے کر رکھے ہیں۔ پشاور این اے 31 سے حاجی غلام احمد بلور، مردان این اے 22 سے مولانا قاسم اور چارسدہ این اے 24 سے ایمل ولی خان میدان میں اترے ہیں۔
خیبرپختونخوا کے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار شمیم شاہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ تینوں حلقوں میں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کی مقبولیت میں خاصا اضافہ ہوا ہے مگر پی ڈی ایم جماعتوں کے اتحاد سے ووٹوں پر بہت اثر پڑے گا۔
شمیم شاہد کے مطابق ’عمران خان کی پوزیشن اس دفعہ کمزور اس لیے ہے کہ انہوں نے صوبے میں دو دفعہ حکومت کی مگر کارکردگی غیرتسلی بخش ہے۔‘

این اے 31 پشاور میں عمران خان کی پوزیشن کیسی ہے؟

این اے 31 پشاور شہری علاقوں پر مشتمل قومی اسمبلی کا بڑا حلقہ ہے جس کی تاریخی حیثیت ہے۔ اس حلقے میں عمران خان اور غلام احمد بلور مدمقابل ہیں جبکہ جماعت اسلامی کے امیدوار سمیت پانچ آزاد امیدوار بھی ہیں۔
سنہ 2013 کے عام انتخابات کی بات کی جائے تو چیئرمین پی ٹی آئی، غلام احمد بلور کو بھاری ووٹوں سے شکست دے چکے ہیں۔ سنہ 2018 میں پی ٹی آئی کے امیدوار شوکت علی بھی اسی حلقے سے جیت کر ایم این اے منتخب ہوئے تھے۔

سنہ 2013 کے عام انتخابات میں عمران خان نے غلام احمد بلور کو بھاری ووٹوں سے شکست دی تھی۔ (فائل فوٹو: اے پی پی)

پشاور کے صحافی سراج الدین کے مطابق عمران خان کے لیے اس بار حالات مختلف ہیں کیونکہ پی ڈی ایم کی جماعتیں غلام احمد بلور کی حمایت کر رہی ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو حالیہ بلدیاتی انتخابات میں جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کا امیدوار جیت کر مئیر منتخب ہوا تھا، اور اس بار جے یو آئی غلام احمد بلور کو سپورٹ کر رہی ہے۔
سراج الدین نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’عمران خان نے 2013 کے الیکشن میں یہ سیٹ جیت کر چھوڑ دی تھی جس کے بعد ووٹرز مایوس ہوئے تھے۔ انہیں یقین ہے کہ اس بار بھی عمران خان این اے 31 جیتنے کے بعد چھوڑ دیں گے۔‘
’تاہم ان تمام باتوں سے قطع نظر پشاور میں عمران خان کے چاہنے والے بھی موجود ہیں جو خاموش ووٹرز کی صورت میں ہیں۔‘

این اے 24 چارسدہ کا فاتح کون ہو گا؟

چارسدہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 24 میں عمران خان کا مقابلہ عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اور اسفند یار ولی خان کے بیٹے ایمل ولی خان سے ہے۔

کیا ایمل ولی عمران خان کو شکست دیں پائیں گے؟

سینیئر صحافی عبدالرحمان کے مطابق’سنہ 2018 کے عام انتخابات میں صوبائی اسمبلی کی نشست پر ایمل ولی خان کو پی ٹی آئی کے سلطان محمد نے چھ ہزار ووٹوں سے شکست دی تھی لیکن اس بار سلطان محمد عوامی نیشنل پارٹی میں شامل ہو چکے ہیں۔ سلطان محمد کا تعلق چارسدہ کے اہم سیاسی خاندان سے ہے جس کا اپنا اچھا خاصا ووٹ بنک ہے۔‘
’اس حلقے کی تاریخ دیکھیں تو مختلف سیاسی جماعتوں کا اثر رہا ہے تاہم مولانا فضل الرحمان کا ووٹ بنک یہاں بھاری رہا ہے جو اس بار ایمل ولی کی سپورٹ میں ہے۔ اگر جے یو آئی کا ووٹر ایمل ولی کو ووٹ دیتا ہے تو عمران خان کی پوزیشن کمزور ہو سکتی ہے۔‘

مولانا فضل الرحمان کا ووٹ بنک اس بار ایمل ولی کی سپورٹ میں ہے۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

واضح رہے کہ سنہ 2018 کے جنرل الیکشن میں پی ٹی آئی کے فضل محمد اسفند یار ولی اور جے یو آئی کے مولانا گوہر کو شکست دے کر کامیاب ہوئے تھے۔

این اے 22 مردان میں جیت کس کی ہو گی؟

مردان این اے 22 میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے مدمقابل پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے مشترکہ امیدوار مولانا محمد قاسم ہیں۔
سنہ 2013 کے جنرل الیکشن میں پی ٹی آئی کے علی محمد خان نے سات ہزار ووٹوں سے جے یو آئی کے مولانا قاسم کو شکست دی تھی۔ سنہ 2018 کے عام انتخابات میں بھی علی محمد خان اسی حلقے سے کامیاب ہوئے تھے جبکہ جے یو آئی کے مولانا محمد قاسم کو ایک بار پھر شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
تاریخ کو مدنظر رکھا جائے تو پی ٹی آئی کا پلڑا بھاری رہا ہے مگر سیاسی ماہرین اس بار مولانا قاسم کو مضبوط امیدوار کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ تمام اپوزیشن جماعتیں مولانا قاسم کی حمایت کر رہی ہیں جبکہ دوسری وجہ سابق ایم این اے کی غیرتسلی بخش کارکردگی ہے جس کا عوام برملا اظہار کر رہے ہیں۔
مردان کے بزرگ شہری نعیم خان نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’علی محمد خان کے دور میں مردان میں کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوا۔ صرف تقاریر سے کچھ نہیں ہوتا اسمبلی میں جا کر کام بھی کرنا پڑتا ہے۔‘
تاہم پی ٹی آئی کے ضلعی قائد بلال احمد کا دعویٰ ہے کہ ’مردان میں عمران خان کا جلسہ سب سے کامیاب رہا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ عمران خان آج بھی مقبول ہیں اور ان کی جیت بھی یقینی ہے۔‘
بین الاقوامی ادارے سے وابستہ صحافی عبدالرزاق کے مطابق مولانا قاسم کا تعلق مذہبی گھرانے سے ہے۔ وہ مدرسے کے سربراہ ہیں اور ان کے پیروکار بھی زیادہ ہیں۔ پی ڈی ایم کی سپورٹ سے مولانا قاسم کی پوزیشن مضبوط ہو چکی ہے۔

مولانا قاسم (دائیں) مدرسے کے سربراہ ہیں اور ان کے پیروکار بھی زیادہ ہیں۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

ان کا کہنا تھا کہ مردان جلسے کے دوران عمران خان نے بھی مولانا قاسم کی تعریف کی۔
کیا جے یو آئی کا ووٹر عوامی نیشنل پارٹی کو ووٹ دے گا؟
شمیم شاہد کا کہنا تھا کہ ’عمران خان کے مولانا فضل الرحمان کے خلاف غیر مناسب الفاظ استعمال کرنے کی وجہ سے جمیعت علمائے اسلام کے ووٹرز میں غصہ پایا جاتا ہے۔ اس لیے قائدین کی طرف ووٹرز کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنا ووٹ پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار کو دیں۔ مجھے لگتا ہے مردان اور چارسدہ میں عمران خان کو ٹف ٹائم ملے گا۔‘

شیئر: