Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بائیڈن کا بیان ’کسی ملک کو خوش کرنے کے لیے‘؟

امریکی کانگریشنل کمپیئن کمیٹی میں دیے گئے امریکی صدر کے بیان نے ہلچل مچا دی ہے (فوٹو: روئٹرز)
امریکی صدر جو بائیڈن نے ایک ایسے وقت میں پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام سے متعلق خدشات کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کو ایک خطرناک ملک قرار دیا جب دونوں ملکوں کی جانب سے باہمی تعلقات میں بہتری لانے کی کوششیں جاری تھیں۔
وزیراعظم شہباز شریف کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس میں شرکت کے موقع پر امریکی صدر کے ساتھ مختصر ملاقات اور پھر جاری ہونے والی تصویر کے بعد حکومتی حلقوں کی طرف سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ پاک امریکہ تعلقات جو سابق دور حکومت میں بہتر نہیں تھے اب بہتری کی جانب گامزن ہو رہے ہیں۔ 
اس کے بعد وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا دورہ امریکہ اور وہاں ہونے والی ملاقاتوں سے بھی یہی پیغام ملا۔ اس تاثر کو مزید تقویت اس وقت ملی جب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے امریکہ کا دورہ کیا اور امریکی مشیر قومی سلامتی سمیت پینٹاگون میں اعلی حکام سے ملاقاتیں کیں۔ 
اس صورت حال میں امریکی کانگریشنل کمپیئن کمیٹی میں دیے گئے امریکی صدر کے بیان نے ہلچل مچا دی ہے۔ 
پاکستان کی جانب سے وزیراعظم شہباز شریف، وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے ردعمل دیا ہے اور امریکی سفیر کو دفتر خارجہ بلا کر پاکستان کی جانب سے ڈیمارش کیا گیا ہے۔ پاکستان کی جانب سے مراسلے میں مایوسی اور تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ 
اس صورت میں یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ آخر امریکی صدر نے یہ بیان کیوں دیا ہے جب امریکہ خود پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری کا خواہاں ہے۔
اس حوالے سے اردو نیوز نے پاکستان کے دو سابق سفارت کاروں اور سابق ترجمان دفتر خارجہ کے عہدوں پر فائز رہنے والے عبدالباسط اور نفیس ذکریا سے گفتگو کی ہے۔ 
سفارت کار عبدالباسط کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے حالیہ روابط کے تناظر میں امریکی صدر کا بیان غیر ضروری ہے۔
اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام امریکہ کی آنکھوں میں ہمیشہ سے کھٹکتا رہا ہے، لیکن بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے جاری ہونے والی نیشنل سکیورٹی پالیسی میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر کسی قسم کے کوئی تحفظات کا اظہار نہیں کیا گیا تھا۔
ان کے مطابق ’اس لیے موجودہ صورت حال میں امریکی صدر کا بیان امریکہ میں ہونے والے مڈٹرم انتخابات میں امریکی عوام اور میڈیا کی توجہ امریکہ کے حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانا ہے، کیونکہ امریکی قیادت ہمیشہ سے شوشے چھوڑنے میں ماہر رہی ہے اور پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کے حوالے سے اسرائیلی اور انڈین لابیز پروپیگنڈہ بھی کرتی رہتی ہیں۔ اس طرح کا بیان مڈٹرم انتخابات میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔‘

   عبدالباسط کے مطابق امریکی صدر کا بیان غیر ضروری ہے (فوٹو: نیوز 18)

عبدالباسط نے کہا کہ ’امریکی صدر نے نیوکلیئر پروگرام کے بے قاعدہ ہونے کی جو وجہ بیان کی ہے کہ اس وقت پاکستان میں سیاسی ہم آہنگی نہیں ہے تو جو بائیڈن سے بہتر کون جانتا ہے کہ اس وقت امریکہ سیاسی لحاظ سے اتنا تقسیم ہے کہ جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ سابق امریکی صدر ٹرمپ نے انتخابات کے نتائج ماننے سے انکار کیا اور ان کے حامیوں نے کیپٹل ہل پر حملہ کیا اور اب تک پیشیاں بھگت رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بے شک سیاسی تناؤ موجود ہے، لیکن پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام بہت سے ممالک کے مقابلے میں محفوظ ہے، جس میں آج تک کوئی واقعہ پیش نہیں آیا، جبکہ انڈیا کا تو میزائل پاکستان میں آ گرتا ہے اور نیوکلیئر مادے تک چوری ہو جاتے ہیں۔‘
دوسری جانب سفارت کار نفیس ذکریا امریکی صدر کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’انہیں یہ بیان دینے کے لیے کسی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ یہ بیان دیں۔ ان کے بیان سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ کسی ملک کو خوش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور سب جانتے ہیں کہ وہ ملک کون سا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں شروع سے ہی اتار چڑھاؤ آتے رہے ہیں اور پاکستان نے ہمیشہ اسے دوستی سمجھ کر ہی نبھایا ہے۔ 50 کی دہائی میں امریکی کیمپ میں جانے کا فیصلہ ہو یا امریکہ اور چین میں ثالثی یا پھر روس افغانستان جنگ میں پاکستان کی جانب سے امریکہ کی حمایت کا فیصلہ ہو۔ پاکستان نے ہمیشہ امریکہ کا ساتھ دیا ہے اور اس کی بہت بھاری قیمت چکائی ہے۔‘
’نائن الیون کے بعد تو امریکہ کا پاکستان کے ساتھ رویہ سب کے سامنے ہے، بلکہ امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے خود امریکی رویے پر افسوس اور شرمندگی کا اظہار کیا تھا۔‘
نفیس ذکریا نے کہا کہ ’امریکہ نے ہمیشہ اپنے مفاد کو دیکھا ہے اور ماضی میں اس خطے میں امریکہ روس اور چین کے تناظر سے اپنی پالیسیاں بناتا تھا۔ اب انہوں نے اس سلسلے میں انڈیا کو بھی شامل کیا ہے اور انہوں نے اس کے ساتھ اپنا گٹھ جوڑ بڑھایا ہے اور اس کے اصل اہداف اب بھی روس اور چین ہیں۔‘
امریکی صدر کی جانب سے پاکستان کو خطرناک ملک قرار دیے جانے کے حوالے سے نفیس ذکریا نے کہا کہ ’وہ کون سا ملک ہے جس نے جاپان پر ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال کیا تھا جس کا خمیازہ آج بھی جاپانیوں کی نسلیں بھگت رہی ہیں۔ ماضی قریب میں جتنی بھی جنگیں ہوئی ہیں وہ امریکہ کی وجہ سے ہیں، بلکہ مستقبل قریب میں بھی امریکی پالیسیاں پورے خطے کے امن کے لیے خطرہ ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’امریکہ کی جانب سے کسی دوسرے ملک کو خطرناک قرار دینے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا جس کی پالیسیوں کی وجہ سے مشرق وسطیٰ اور دیگر خطے کے کروڑوں لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔ امریکہ کے بعد اگر کوئی خطرناک ملک ہے تو وہ انڈیا ہے۔ جس کے ایٹمی ہتھیار غیر ذمہ دار ہاتھوں میں جانے کا خدشہ موجود ہے۔‘ 

نفیس ذکریہ نے کہا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ وزیراعظم کا ردعمل انتہائی مناسب ہے۔‘ (فوٹو: دفتر خارجہ)

’امریکی صدر کے بیان کے بعد ہمیں امریکہ کے حوالے سے اپنی پالیسیوں کو از سرنو ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ امریکی صدر کا بیان اس حوالے سے غیر ذمہ دارانہ ہے، کیونکہ امریکہ بار ہا پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے غیرمحفوظ ہونے کے بیانات دیتا رہا ہے۔‘
پاکستان کا ردعمل کیسا ہے؟ 
پاکستان کی جانب سے اب تک جو ردعمل سامنے آیا ہے اسے پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو حکومت امریکہ مخالف جذبات کو اپنے حق میں کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی، بلکہ سیاسی حلقوں اور سوشل میڈیا پر پاکستان کی جانب سے تاخیر سے ردعمل سامنے آنے اور محتاط ردعمل پر حکومت کو تنقید کا سامنا ہے۔
سفارت کار عبدالباسط کے مطابق پاکستان کی امریکہ کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی خواہش اور مثبت پیش رفتوں کو سامنے رکھتے ہوئے نرم زبان قابل فہم سمجھ ہے اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں، تاہم امریکی سفیر کی دفتر خارجہ طلبی کے لیے پریس ریلیز میں ’بلانے‘ کے بجائے ’سمن‘ جیسے الفاظ استعمال کیے جاتے تو بہتر ہوتا۔ 
تاہم نفیس ذکریا وزیراعظم شہباز شریف کے ردعمل کو انتہائی مناسب قررا دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’وزیراعظم ہوتے ہوئے آپ کو زبان و بیان کے حوالے سے بہت ہی ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنا ہوتا ہے، کیونکہ آپ اپنی ذات یا پارٹی کی نہیں بلکہ پورے ملک کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ وزیراعظم کا ردعمل انتہائی مناسب ہے۔‘

شیئر: