معاہدے پر بیروت میں لبنان کے صدر میشل عون اور یروشلم میں اسرائیل کے وزیراعظم یائر لیپڈ نے علیحدہ علیحدہ دستخط کیے تھے اور اس کی فائل ثالثوں کے حوالے کیے جانے کے بعد یہ نافذالعمل ہوا۔
جو بائیڈن نے ایک بیان میں کہا کہ ’فریقین نے معاہدے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے حتمی اقدامات کیے اور حتمی کاغذی کارروائی امریکہ کی موجودگی میں اقوام متحدہ میں جمع کرائی۔‘
معاہدے پر دستخط ہونے سے قبل کئی ماہ تک اسرائیل پر حملے کی دھمکی دینے کے بعد اسرائیل مخالف لبنانی گروپ حزب اللہ نے کہا ہے کہ اگر وہ سرحد پر غیرملکی گیس کے ذخائر تک پہنچ جاتے ہیں تو وہ اسرائیل کے خلاف اپنی ’غیرمعمولی‘ نقل و حرکت کو ختم کر دیں گے۔
حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ نے ٹیلی ویژن پر اپنے خطاب میں کہا کہ ’ہمارا مشن مکمل ہو گیا ہے۔‘
خیال رہے کہ یہ معاہدہ ایسے وقت سامنے آیا ہے جب لبنان بدترین معاشی بحران سے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے اور اسے عالمی بینک نے جدید تاریخ میں دنیا کے بدترین معاشی بحرانوں میں سے ایک قرار دیا ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم یائر لیپڈ یکم نومبر کو ہونے والے عام انتخابات سے قبل ایک بڑی کامیابی اپنے نام کرنا چاہتے ہیں۔
اس معاہدے کے لیے دونوں ممالک کے خطوط کا تبادلہ جنوبی لبنان کے سرحدی شہر نقورا میں امریکی ثالث آموس ہوچسٹین اور لبنان کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی کوآرڈینیٹر جووانا رونیکا کی موجودگی میں ہوا جو اب نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں یہ دستاویزات جمع کرائیں گے۔
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ ’توانائی کے معاملے کو خاص طور پر مشرقی بحیرہ روم میں، تنازعے کا سبب نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے تعاون، استحکام، سلامتی اور خوشحالی کا ایک ذریعہ ہونا چاہیے۔‘
اس معاہدے پر دستخط کرنے سے چند گھنٹے قبل اسرائیلی وزیراعظم یائر لیپڈ نے دعویٰ کیا تھا کہ اس معاہدے پر دستخط کرنے کا لبنان کا ارادہ درحقیقت یہودی ریاست کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ایسا ہر روز نہیں ہوتا کہ کوئی دشمن ریاست پوری عالمی برادری کے سامنے تحریری معاہدے میں اسرائیل کو تسلیم کرے۔‘
دوسری جانب لبنان کے صدر میشل عون نے یائر لیپڈ کے اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ’جنوبی سمندری سرحد کی حد بندی کرنا تکنیکی کام ہے جس کے کوئی سیاسی اثرات نہیں ہیں۔‘
اے ایف پی کے مطابق اس بحری سرحدی معاہدے پر لبنان کی طرف سے حزب اللہ کی رضامندی کے بغیر دستخط نہیں کیے جا سکتے تھے، جو ایک طاقتور شیعہ گروپ ہے جسے اسرائیل کے دیرینہ مخالف ملک ایران کی حمایت حاصل ہے۔
حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ نے کہا کہ یہ معاہدہ ’بین الاقوامی معاہدہ نہیں ہے اور یہ اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا ہے‘۔ انہوں نے اسے ’لبنان کی عظیم فتح‘ قرار دیا ہے۔