اسرائیل نے مغربی کنارے میں متنازع بستیاں تعمیر کرنے کی منظوری دے دی
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے خبردار کیا کہ ای ون میں بستیوں کی تعمیر ’دو ریاستی حل کے خواب کو ختم کر دے گی۔‘ (فوٹو: روئٹرز)
اسرائیل نے بدھ کے روز مقبوضہ مغربی کنارے میں ایک بڑے اور متنازع بستی منصوبے کی منظوری دے دی، ایسے علاقے میں جسے بین الاقوامی برادری مستقبل کی آزاد فلسطینی ریاست کے لیے خطرہ قرار دیتی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اسرائیل طویل عرصے سے یروشلم کے مشرق میں واقع تقریباً 12 مربع کلومیٹر کے علاقے ای ون پر بستی تعمیر کرنے کا خواہشمند رہا ہے، لیکن عالمی دباؤ اور مخالفت کے باعث یہ منصوبہ کئی سالوں سے رکا ہوا تھا۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں بستی کی تعمیر مغربی کنارے کو دو حصوں میں تقسیم کر دے گی، جس سے مشرقی یروشلم کو دارالحکومت بنانے والی آزاد فلسطینی ریاست کے امکانات کو شدید نقصان پہنچے گا۔
گزشتہ ہفتے، اسرائیل کے دائیں بازو کے وزیر خزانہ، بیزلیل سموٹریچ نے اس حساس علاقے میں تقریباً 3,400 گھروں کی تعمیر کی حمایت کی تھی۔ یہ علاقہ یروشلم اور اسرائیلی بستی معالیہ ادومیم کے درمیان واقع ہے۔
معالیہ ادومیم کے میئر، گائے یفرخ، نے بدھ کے روز کہا کہ ’مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ سول ایڈمنسٹریشن نے ابھی کچھ دیر پہلے ای ون کے علاقے میں بستی کے منصوبے کی منظوری دے دی ہے۔‘
فلسطینی اتھارٹی کا سخت ردعمل
رام اللہ میں قائم فلسطینی اتھارٹی نے اس اقدام کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ فیصلہ دو ریاستی حل کے امکانات، ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام اور اس کی جغرافیائی و آبادیاتی وحدت کو نقصان پہنچاتا ہے۔‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ یہ منصوبہ مغربی کنارے کو منقسم علاقوں اور کینٹونز میں بدل دے گا، جہاں فلسطینیوں کی نقل و حرکت صرف اسرائیلی چیک پوسٹوں اور مسلح آبادکاروں کے رحم و کرم پر ہوگی، بالکل ایک قید خانے کی مانند۔
بین الاقوامی برادری کی مخالفت
بین الاقوامی قانون کے مطابق، اسرائیل کی تمام بستیاں غیر قانونی ہیں، چاہے اسرائیلی حکومت کی جانب سے انہیں اجازت ملی ہو یا نہیں۔
اردن کے بادشاہ عبداللہ دوم نے بھی بدھ کو اس منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’دو ریاستی حل ہی ایک منصفانہ اور مکمل امن کا واحد راستہ ہے۔‘
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے خبردار کیا کہ ای ون میں بستیوں کی تعمیر ’دو ریاستی حل کے خواب کو ختم کر دے گی۔‘
اسرائیلی تنقید اور ردعمل
اسرائیلی تنظیم آر امیم کے محقق آویو تاتارسکی نے کہا کہ ’یہ منظوری اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل وزیر سموٹریچ کے اُس سٹریٹجک منصوبے پر عمل کر رہا ہے جس کا مقصد فلسطینی ریاست کے امکان کو دفن کرنا اور مغربی کنارے کو عملی طور پر ضم کرنا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ نسلی امتیاز پر مبنی نظام کو نافذ کرنے کا ایک سوچا سمجھا فیصلہ ہے۔‘
انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری اور مؤثر اقدامات کرے۔
اسرائیلی این جی او ’پیِس ناؤ‘ نے خبردار کیا ہے کہ اگر سب کچھ منصوبے کے مطابق چلا تو چند ماہ میں انفراسٹرکچر کا کام شروع ہو جائے گا اور ایک سال کے اندر گھروں کی تعمیر بھی ممکن ہو سکتی ہے۔