Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لبنان کے اقتصادی بحران میں تناؤ کے ذمہ دار شامی پناہ گزین؟

یہ ہماری زمین ہے اب انہیں پہلی فرصت میں اپنے گھر واپس جانا چاہیے۔ فوٹو عرب نیوز
شمالی شام کی  خاتون دارین نے تشدد اور مشکل صورتحال  سے بچنے کے لیے2014 میں اپنے خاندان سمیت آبائی شہر حلب سے لبنان کی جانب  ہجرت کرتے ہوئے یہی سوچا تھا کہ انہیں یہ نقل مکانی زیادہ سے زیادہ ایک سال تک کرنی پڑےگی۔
عرب نیوز میں شائع ہونے والے مضمون کے مطابق آج آٹھ سال بعد بھی یہ خاتون اپنے 3 بچوں سمیت شام کی سرحد کے قریب شتورا کے امدادی کیمپ میں بطور پناہ گزین مقیم ہے۔

لبنان کے پاس اب یہ بوجھ برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں۔ فوٹو عرب نیوز

شامی خاتون دارین نے بتایا ہے کہ میرا شوہر 2018 سے لاپتہ ہے، وہ اپنے دوست کے ساتھ کام کاج کی تلاش میں شام واپس گیا تھا جس کے بعد سے اس کی کوئی اطلاع نہیں۔
حلب سے آنے والی خاتون نے مزید بتایا کہ میرے خاندان اور چند دوسرے لوگوں نے مشورہ دیا ہے کہ مجھے اب اس کے بغیر زندگی گزارنا ہو گی جیسا کہ وہ اب دنیا میں نہیں۔
شامی پناہ گزینوں سے متعلق ایسی بہت ساری کہانیاں اور داستانیں اس امدادی کیمپ میں سنائی دیتی ہیں۔

لبنان میں تقریبا ساڑھے آٹھ لاکھ سے زائد  شامی پناہ گزین خاندان مقیم  ہیں۔ فوٹو ٹوئٹر

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق لبنان میں تقریبا ساڑھے آٹھ لاکھ  شامی پناہ گزین مقیم  ہیں جنہوں نے 2019 کے آخر میں عالمی وبا کورونا کے باعث میزبان ملک کو  مالیاتی بحران کا سامنا کرتے دیکھا ہے اور جسے  یوکرین کی جنگ نے  مزید مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔
موجودہ  اقتصادی بحران کے باعث لبنان کی سیاسی گفتگو میں شامی پناہ گزینوں کے خلاف کچھ تیزی آ گئی ہے اور وزراء نے  ایسے بیان بھی دیئے ہیں جس میں بے گھرخاندانوں اور پناہ گزینوں کو مشکلات اور عوامی خدمات میں  تناؤ کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔
لبنان کی نگراں حکومت کا دعویٰ ہے کہ شامی پناہ گزینوں کی تعداد 1.5 ملین کے قریب ہے، لبنان کی خستہ حال معیشت پر سمجھے جانے والے اس بوجھ کو کم کرنے کے لیے حکومت نے انہیں وطن واپس بھیجنے کے لیے ایک اسکیم شروع کی ہے۔

شامیوں کے بارے میں سخت بیانیے کے ممکنہ اثرات پر فکرمند ہیں۔ فوٹو عرب نیوز

لبنان کے نگراں وزیر اعظم نجیب میقاتی نے جون میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام لبنان بحران سے متعلق ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ شام کے بحران کے گیارہ سال بعد اورخاص طور پر موجودہ حالات میں لبنان کے پاس اب یہ بوجھ برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں۔
نجیب میقاتی  نے کہا کہ میں بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کرتا ہوں کہ لبنان کے ساتھ مل کر شامی پناہ گزینوں کی واپسی  یقینی بنائےورنہ لبنان قانونی ذرائع اور لبنانی قانون کے ذریعے شامی پناہ گزینوں  کو نکالنے کے لیے کام کرے گا۔
اقوام متحدہ کے مطابق لبنان نے شام کے بحران کے اثرات سے نمٹنے کے لیے 3.2 بلین ڈالر  امداد کی اپیل کی ہے جب کہ2015 سےلبنان کرائسز ریسپانس پلان کے ذریعے تقریباً 9 بلین ڈالر  کی امداد پہلے ہی فراہم کی جا چکی ہے۔
ماہرین کے مطابق لبنان کے معاشی مسائل اور اس کے متعدد بحرانوں کی وجوہات شامی پناہ گزینوں کی میزبانی کے اخراجات سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہیں جس کے لیے اسے عالمی امداد حاصل ہے۔

شامی پناہ گزینوں کو سڑکوں پر بھیک مانگتے دیکھتی ہوں۔ فوٹو عرب نیوز

دریں اثنا  لبنان کے بے گھر افراد کے نگراں وزیر عصام شریف الدین نے جولائی میں کہا  تھا کہ حکومت ہر ماہ کم از کم 15 ہزار شامی مہاجرین کی واپسی شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور شام میں پناہ گزینوں کی واپسی اب محفوظ ہے۔
شامی حکومت کی مقامی انتظامیہ کے وزیر حسین مخلوف نےعصام شریف الدین کے ساتھ ایک ملاقات میں کہا ہے کہ شامی پناہ گزینوں کی واپسی کے لیے دروازے کھلے ہیں اور  شامی صدر بشار الاسد کی حکومت پناہ گزینوں  کی واپسی کو آسان بنانے کے لیے تیار ہے۔
لبنانی شہری جو اپنے خاندانوں کا پیٹ پالنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، ان کا مطالبہ ہے کہ ریاست ان کی ضروریات کو سمجھے۔ پناہ گزینوں کی موجودگی ان کے حالات مزید خراب کر رہی ہے۔

عالمی وبا کورونا کے باعث میزبان ملک کو  مالیاتی بحران کا سامنا ہے۔ فوٹو عرب نیوز

51 سالہ لبنانی سکول ٹیچرماریہ نے بتایا ہے کہ جب میں شامی پناہ گزینوں کو سڑکوں پر بھیک مانگتے دیکھتی ہوں، جب میں انہیں اپنے سامان کی ادائیگی کے لیے کسی قسم کے فلاحی کارڈ کے ساتھ قطار میں کھڑا دیکھتی ہوں تو مشکل سے خود پر قابو پانے کی کوشش کرتی ہوں۔
ماریہ نے کہا کہ اب ان کا یہاں خیرمقدم نہیں ہے، یہ ہماری زمین ہے، ہماری خوراک ہے، ہمارا پیسہ ہے۔ انہیں پہلی فرصت میں اپنے گھر واپس جانا چاہیے۔
شامیوں کے خلاف ایسے سخت بیانیے کے ممکنہ اثرات کے بارے میں فکرمند لبنان میں اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے رابطہ کار نجات رشدی نے لبنانی عوام پر زور دیا ہے کہ وہ دشمنی کو ہوا دینے سے گریز کریں۔

شیئر: