Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان پر حملے کے مقدمے میں قانونی تقاضے پورے ہوئے؟

تحریک انصاف کی تمام قیادت یک زبان ہو کر ایف آئی کو مسترد کر چکی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے دوران وزیر آباد کے قریب ہونے والی فائرنگ میں ایک شخص ہلاک جبکہ عمران خان سمیت 13 افراد زخمی ہوئے تھے۔ اس واقعے کی ایف آئی آر سپریم کورٹ کے حکم پر گذشتہ روز پولیس نے درج کی تھی تاہم تحریک انصاف اس ایف آئی آر کو تسلیم نہیں کر رہی ہے۔ 
تحریک انصاف کی تمام قیادت یک زبان ہو کر اس ایف آئی کو مسترد کر چکی ہے۔ پنجاب حکومت کی ترجمان مسرت چیمہ نے بھی اس ایف آئی آر کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔
تحریک انصاف کا موقف ہے کہ جو درخواست وہ پولیس کو دے رہے تھے اس کے مطابق مقدمہ درج نہیں ہوا۔ ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس واقعے کی درج ہونے والی ایف آئی آر میں کیا قانونی تقاضے پورے ہوئے ہیں؟ پاکستان کا مروجہ قانون ایسی ایف آئی آر کے بارے میں کیا کہتا ہے کہ جب درخواست گزار موجود ہو تو پولیس اپنی مدعیت میں ایف آئی آر درج کر لے؟ ان سب سوالوں کے جواب حاصل کرنے کے لیے اردو نیوز نے فوجداری قوانین کے ماہر وکلا  سے بات کی ہے۔
سپریم کورٹ کے وکیل شمیم ملک کہتے ہیں کہ کسی بھی ضمنی بحث میں جانے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ قانون میں ایف آئی آر کا مطلب کیا ہے؟ ان کا کہنا ہے کہ ’ضابطہ فوجداری کی شق 154 کے تحت ایف آئی آر ایسے کسی بھی واقعے کی پہلی اطلاع کو کہا جاتا ہے جس میں کوئی قابل دست انداز پولیس جرم سرزد ہوا ہو۔ اگر آپ اس شق کو پڑھیں تو لکھا ہے کہ کوئی بھی شخص کسی جرم کی معلومات متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کے علم میں لے کر آئے تو وہ پولیس آفیسر خود یا اس کا کوئی ماتحت اس معلومات کو ضبط تحریر میں لانے کا پابند ہے۔ یہی ایف آئی آر ہوتی ہے۔‘
 فوجداری مقدمے میں ایف آئی آر کے مدعی کی حیثیت کتنی اہم ہے؟ اس حوالے سے شمیم ملک کا کہنا تھا کہ ’قانونی کی نظر میں اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ ایسے درجنوں کیس ہیں جس میں قاتل خود قتل کر کے مدعی بن جاتا ہے اور پولیس تفتیش میں وہی دوبارہ ملزم نکل آتا ہے اور پولیس اسے گرفتارکر لیتی ہے۔ قانون کے مطابق کسی بھی واقعے کی اطلاع کوئی بھی پولیس کو دے سکتا ہے۔ ایف آئی آر تو قانون کو حرکت میں لانے کا محظ ایک ذریعہ ہے۔‘
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق سیکریٹری اور فوجداری مقدمات کے ماہر آفتاب باجوہ کہتے ہیں کہ ’جب کسی کے ساتھ واقعہ ہوتا ہے تو یہ اس کا حق ہے کہ اس کی دی ہوئی معلومات کے مطابق ہی ایف آئی آر درج کی جائے۔ اگر پولیس ایسا نہیں کرتی تو اپنی مرضی کی ایف آر درج کرنے کے بعد متاثرہ افراد سے ان کے بیانات کراس ورژن کے طور پر ریکارڈ کا حصہ بنانے کی پابند ہے۔ چونکہ سپریم کورٹ کا واضع حکم ہے کہ ایک واقع کی دو ایف آر درج نہیں ہو سکتیں اس لیے پولیس نے وزیرآباد واقع میں اپنی مرضی کی ہے۔ قانونی طور پر قدغن تو نہیں لیکن اگر متاثرین اسے تسلیم نہ کریں تو مسئلہ تو بنے گا۔‘
خیال رہے کہ تحریک انصاف کے ایک راہنما زبیر نیازی نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے تھانے میں درخواست دی لیکن اسے قبول نہیں کیا گیا۔
شمیم ملک کہتے ہیں کہ ’اگر وزیر آباد واقعے کو دیکھا جائے تو اور ایف آئی آر کے قانونی اور غیر قانونی ہونے کی بات کی جائے تو اس وقت اس تھانے کی پولیس بھی وہاں موجود تھی وقوعہ ان کے سامنے ہوا جس کا مطلب یہ ہے کہ پولیس خود اس واقعے کی ایف آئی آر درج کر سکتی ہے۔ اس کے بعد بھی تفتیشی افسر کے پاس بڑے اختیار ہوتے ہیں وہ ضابطہ فوجداری کی شق 161 کے تحت عمران خان اور دیگر زخمیوں کے بیان ریکارڈ پر لا سکتا ہے۔ اور ایف آئی آر کے اندر درج مواد یا ملزمان کے ناموں کو شق 157 بی کے تحت ختم کر سکتا ہے۔ اس لیے یہ بحث قانون سے متعلق تو ہے ہی نہیں یہ مکمل طور پر ایک سیاسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے‘

شیئر: