Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فلم ’دی کیرالہ سٹوری‘ ریلیز سے پہلے ہی تنازع کا شکار کیوں؟

یک سینیئر پولیس افسر نے بتایا کہ دفعہ 153 کی شق اے اور بی اور تعزیرات ہند کی دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے (فوٹو: سکرین گریب)
انڈین فلم ’دی کیرالہ سٹوری‘ ریلیز سے پہلے ہی تنازع کا شکار ہو گئی ہے اور پولیس نے فلم کے عملے کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔
انڈین اخبار ہندوستان ٹائمز کے مطابق کیرالہ کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس انیل کانت نے ترواننت پورم کے پولیس کمشنر سپارجن کمار کو ہدایت کی کہ وہ ’دی کیرالہ سٹوری‘ فلم کے عملے کے خلاف ریاست کو دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ کے طور پر پیش کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کریں۔
رواں ماہ کے شروع میں ریلیز ہونے والی فلم کے ٹیزر میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ دس برسوں میں جنوبی ریاست سے 32,000 خواتین نے مذہب تبدیل کیا اور ان میں سے زیادہ تر کو شام اور افغانستان میں دولت اسلامیہ کے زیر قبضہ علاقوں میں لے جایا گیا۔ فلم کے ہدایت کار سدیپٹو سین ہیں اور پروڈیوس وی اے شاہ نے کیا ہے۔
دو دن قبل تمل ناڈو میں مقیم ایک صحافی بی آر اروندکشن نے ملک کے فلم سرٹیفیکیشن بورڈ کے سربراہ پرسون جوشی اور دیگر کو خط لکھ کر فلم پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا تھا۔
شکایت کی ایک کاپی کیرالہ کے وزیر اعلیٰ پنارائی وجین کو بھی بھیجی گئی جنہوں نے بعد میں اسے ڈی جی پی کو بھیج دیا۔
اروندکشن نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا کہ ’میں نے کیرالہ کے وزیر اعلیٰ اور ڈی جی پی کو ایک میل بھیجی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ دی کیرالہ سٹوری کے ڈائریکٹر سدیپتو سین کو فون کریں اور ٹیزر کی سچائی کی تحقیقات کریں۔‘
بعد ازاں وزیراعلیٰ کو لکھے گئے خط میں انہوں نے کہا کہ ’یہ فلم ملک کے اتحاد اور سالمیت کے خلاف ہے جو انٹیلی جنس ایجنسیوں کو بھی داغدار کرے گی۔‘
ٹیزر کا جائزہ لینے کے بعد پولیس اس نتیجے پر پہنچی کہ اس (ٹیزر) میں بہت سے دعوے بغیر کسی ثبوت کے کیے گئے تھے اور اس کا مقصد ’ریاست کے امیج کو خراب کرنا اور مختلف برادریوں کے درمیان نفرت کو ہوا دینا تھا۔‘
ایک سینیئر پولیس افسر نے بتایا کہ دفعہ 153 کی شق اے اور بی (عقیدے کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان بدامنی اور دشمنی کو فروغ دینا) اور تعزیرات ہند کی دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
یہ فلم مبینہ طور پر شمالی کیرالہ سے لاپتہ ہونے والی چار خواتین پر مبنی ہے جنہیں بعد میں اپنے شوہروں کی موت کی اطلاع کے بعد افغانستان کی جیلوں میں منتقل کیا گیا۔ دو سال قبل وزارت خارجہ نے انہیں ملک واپس لے جانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔
ٹیزر میں نقاب پوش ایک خاتون کو دکھایا گیا ہے جس نے اپنی شناخت کیرالہ سے تعلق رکھنے والی شالینی اننی کرشنن عرف فاطمہ با کے نام سے کرائی کہ ’وہ ریاست سے 32,000 تبدیل ہونے والی خواتین میں سے ایک تھی اور بعد میں اسلامک سٹیٹ کے لیے لڑنے کے لیے شام اور یمن بھیجی گئی۔‘

شیئر: