Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان نے 25 مئی سے متعلق ایجنسیوں کی رپورٹس مسترد کر دی

عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے بھی توہین عدالت کی کارروائی سے اپنا نام نکالنے کی استدعا کی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے توہین عدالت کیس میں سپریم کورٹ کے حکم پر 25 مئی کے واقعات سے متعلق جمع کرائی گئی ایجنسیوں کی رپورٹس کو مسترد کرتے ہوئے توہین عدالت کی کارروائی ختم کرنے کی استدعا کر دی ہے۔ 
بدھ کو توہین عدالت کیس میں عمران خان کی جانب سے ایڈووکیٹ سلمان اکرم راجہ نے سپریم کورٹ میں تفصیلی جواب جمع کرایا ہے۔ 
اپنے تحریری جواب میں عمران خان نے موقف اختیار کیا ہے کہ ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا کوئی جواز نہیں۔
’ایجنسیز کی رپورٹس مخصوص مقاصد کے تحت بنائی گئی ہے۔ سکیورٹی ایجنسیز کی جانب سے آئین اور قانون کی خلاف ورزی کی گئی۔ میرے خلاف ایجنسیز کی رپورٹ مفروضوں پر مبنی ہے۔‘ 
عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ عدالت کے 25 مئی کے زبانی احکامات سے آگاہ نہیں تھے اور ان کو سیاسی کارکنوں کے ذریعے عدالتی احکامات کے بارے میں معلوم ہوا۔
’سیاسی کارکنان سے عدالتی احکامات کا پتہ چلا۔ کارکنان کو میڈیا کے ذریعے عدالتی حکم کے بارے میں علم ہوا۔ عدالت کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کی۔‘ 
اپنے جواب میں چیئرمین تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ چھچھ انٹر چینج پر ان کی مکمل تقریر عدالت میں نہیں چلائی گئی۔ ’کارکنوں سے ملنے والی معلومات پر ان کو ڈی چوک پہنچنے کی کال دی۔ کارکنوں نے میڈیا پر خبر سن کر بتایا کہ سپریم کورٹ نے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم دے دیا ہے۔‘ 
انھوں نے کہا کہ عدالتی حکم پر وزارت داخلہ اور اسلام آباد انتظامیہ نے وکلاء کے ساتھ ان کی ملاقات نہیں کرائی۔ عدالت کو وکلاء نے یقین دہانی اسد عمر  کی ہدایت پر دی تھی۔
’اسد عمر نے وکلاء کو ہدایات اسلام آباد میں ایک بجے دی تھی۔ اسد عمر نے ہدایات دینے کے بعد ولی انٹر چینج مردان پر لانگ مارچ کو جوائن کیا تھا۔ اسد عمر کا ہدایات دینے کے بعد وکلاء سے رابطہ جامرز کی وجہ نہ ہو سکا۔‘ 

عمران خان کے مطابق وہ عدالت کے 25 مئی کے زبانی احکامات سے آگاہ نہیں تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

عمران خان نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ وہ عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کے حوالے سے ایجنسیز کی رپورٹ مسترد کرتے ہیں۔
’میرے لیے عدلیہ کا بڑا احترام ہے۔ کبھی بھی عدلیہ یا دیگر قومی اداروں کے خلاف مہم نہیں چلائی۔ عدالت کی توہین کرنے کا کبھی سوچ بھی نہیں سکتا۔
ان کہنا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جمع کردہ رپورٹس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انہوں نے جان بوجھ کرعدالتی احکامات کی خلاف ورزی کی۔
’یہ بات بھی ثابت نہیں ہوتی کہ عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی بنتی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادراوں کی رپورٹس زیادہ تر مفروضوں پر مبنی ہیں۔ یہ رپورٹس توہین عدالت کی کارروائی کو برقرار رکھنے کی بنیاد فراہم نہیں کرتیں۔‘ 
اپنے جواب میں عمران خان نے کہا کہ ان کے خلاف حکومت نے جو رپورٹس تیار کروائیں وہ یک طرفہ ہیں۔
’24 اور 25 مئی کو تحریک انصاف کے کارکنان کے گھروں پر چھاپے مارے گئے۔ تحریک انصاف کے کارکنوں پر کیے گئے تشدد کو چُھپانے کے لیے جھوٹی رپورٹس تیار کی گئیں۔‘ 

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ پی ٹی آئی رہنما اسد عمر نے ان کو زبانی ہدایات دیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

 دوسری جانب عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے بھی اپنے جواب میں توہین عدالت کی کارروائی سے اپنا نام نکالنے کی استدعا کر دی ہے۔ 
بابر اعوان نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ 25 مئی کو ایڈووکیٹ فیصل فرید نے ان کو عدالتی نوٹس کے بارے میں آگاہ تھا۔
’بطور وکیل 40 سال عدلیہ کی معاونت میں گزارے۔ اسد عمر نے رابطے پر زبانی ہدایات دیں۔ اسد عمر کی زبانی ہدایات پر سپریم کورٹ کو یقین دہانی کرائی۔ عدالت کو ارادی یا غیر ارادی طور پر گمراہ نہیں کیا۔ اچھی نیت سے عدالت کی معاونت کی۔
انھوں نے کہا کہ ’عدالتی حکم کے مطابق پی ٹی آئی لیڈرشپ سے میری اور فیصل چوہدری کی ملاقات کا انتظام حکومت کی ذمہ داری تھی۔ حکومت نے عدالتی حکم پر عمل نہیں کیا۔ 26 مئی کو عدالت کو حکومت کی طرف ملاقات کے انتظامات نہ کرنے سے متعلق آگاہ کیا۔ عدالت نے 26 مئی کو قرار دیا کہ لانگ مارچ ختم ہو چکا ہے۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ معاملے کی تفصیل میں جانے کی ضرورر باقی نہیں رہی۔

شیئر: