Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صادق علی: پرنس آف منروا سے کسمپرسی تک

سہراب مودی ’پکار‘ نئی کاسٹ کے ساتھ دوبارہ بنانا چاہتے تھے لیکن بوجوہ ایسا نہ ہو سکا۔ (فوٹو: یوٹیوب)
اس ملک میں ادیب، آرٹسٹ، فن کار کی کوئی قدر نہیں۔ جب اس کی شہرت کا سورج زوال پذیر ہو جاتا ہے تو وہ رات کے اندھیرے میں بھی باہر نکلنے سے گبھراتا ہے کہ کہیں وقت کے چمگادڑ اس کے بدن سے چمٹ کر خون کے آخری قطرے بھی نہ چوس لیں۔ جوں جوں وقت قریب آتا ہے، آرٹسٹ مرنےسے اور خوف زدہ ہوجاتا ہے۔ وہ زندگی کے صحن میں مردہ دھڑکتے کتے کی طرح لیٹا ہوا اپنے کانوں کی ڈگڈگی بجا کر مکھیاں اڑاتا رہتا ہے اور زندگی پیپل کے چمک دار اور نروئے پتوں میں اس پر بیٹیں کرتی رہتی ہے۔
(اشفاق احمد کے افسانے ’ماسٹر روشی‘ سے اقتباس)
اشفاق احمد کا افسانہ پڑھ کر بہت سے فنکاروں کا خیال آتا ہے لیکن ظالم زمانے نے جو سلوک اداکار صادق علی کے ساتھ کیا اس کی مثال ڈھونڈے سے ہی ملے گی۔ وہ اپنے زمانے کے جانے مانے فنکار تھے۔ فلم ’پکار‘ میں اداکاری کی وجہ سے برصغیر میں ان کے نام کا ڈنکا بجا۔ اسے سہراب مودی کی فلم کمپنی ’منروا مووی ٹون‘ نے بنایا تھا جس کی اور بھی کئی فلموں میں انہوں نے کام کیا۔
سہراب مودی ان کے بڑے قدردان تھے۔ انہیں پرنس آف منروا کہا جاتا تھا لیکن تقسیم کے بعد لوگوں نے کراچی میں، کیپیٹل سینما کے پاس اس پرنس کو لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرتے دیکھا۔ سرعام ان کی مالی اعانت ہوتی۔ ایک تو محتاج اوپر سے فالج گزیدہ۔ ان کی درد ناک کہانی ان کی زندگی میں بھی قلبمند ہوتی رہی، اور مرنے کے بعد بھی ان کی کسمپرسی کا ذکر ہوتا رہا۔
بڑے بڑے لکھاریوں نےنہایت درمندی سے ان کا احوال بیان کیا۔ فالج کے بعد ان کی زندگی کا خلاصہ مجید امجد کے ان الفاظ میں بیان کیا جا سکتا ہے:
زندگی اک گہری کڑوی لمبی سانس

صادق علی اداکارہ ثریا کے ساتھ فلم ’جگ بیتی‘ میں۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

ممتاز فکشن نگار اسد محمد خاں کی عام انسان سے گہری دلبستگی ہے۔ وہ ان کے فکشن میں آئے یا نان فکشن میں اسے ایسا زندہ کردار بنا دیتے ہیں کہ اس کے درد کی گہرائی کا اندازہ ہو سکے۔ ذرا دیکھیے صادق علی کی زبوں حالی کا نقشہ ’طوفان کے مرکز میں‘ میں کس مؤثر پیرائے میں کھینچا ہے کہ ان  کی بیکسی پر رونا آتا ہے:
’یہیں کہیں ایک پرانی (وکٹورین) ٹیلر شاپ تھی جس کا مالک فلم ’پکار‘ کے ہیرو (پرنس آف منروا) اداکار صادق علی کا فین تھا۔ اس نے ڈھائی فٹ بائی دو فٹ کے گولڈ فریم میں چاکلیٹی رنگ میں انلارج کی ہوئی اداکار صادق علی کی ایک بڑی تصویر لگا رکھی تھی جس میں وہ فیلٹ ہیٹ پہنےجھک کر سامنے دیکھتے ہوئے دکھائے گئے تھے۔
ٹھیک اس وقت جب کوئی یہ تصویر دیکھ رہا ہوتا، جیتے جاگتے صادق علی (خود پرنس آف منروا مووی ٹون) ٹیلر شاپ سے پچاس گز دور کیپیٹل والی گلی کی نکڑ پر پان کی دکان کے برابر ایک اونچے سٹول پر بیٹھے اپنے سابق پرستاروں سے دو دو پانچ پانچ دس دس روپے نذرانہ لے لے کر کوٹ کی جیب میں رکھتے جاتے تھے۔عام طور پر ان کا شیو بڑھا ہوتا تھا اور فالج سے نڈھال ایک ہاتھ دوسری جیب میں پڑا رہتا تھا۔
نذرانہ دینے کا طریقہ یہ تھا کہ آنے والا صادق علی کو سلام کرتا اور ہاتھ ملانے کے بہانے مٹھی میں دبایا ہوا نوٹ ان کے ہاتھ میں چھوڑ دیتا۔
ہمارے پاس اپنی ضرورت سے زیادہ پانچ پانچ دس دس کے نوٹ آتے رہتے تھے مگر کبھی ہمت نہیں پڑی کہ صادق علی کو سلام کر کے ہاتھ ملاتے اور ایک نوٹ ان کے ہاتھ میں چھوڑ کر ہٹ جاتے۔ شاید ہمارے حساب سے ’پکار کے ہیرو‘ کو اس طرح نوٹ پکڑا دینا (تقریباً)sacrilegious  تھا۔‘

اداکار صادق علی کراچی میں کیپیٹل سینما کی گلی میں۔ (فوٹو: ہفت روزہ 'لیل ونہار' لاہور)

معروف محقق او نقاد مشفق خواجہ نے  نقاد صدیق جاوید کے نام خط میں لکھا:
’منروا فلم کمپنی کی فلموں میں ماسٹر صادق نامی ایک اداکار نے ایسی شہرت حاصل کی تھی کہ گھر گھر اس کی تصویر آویزاں رہتی تھی اور وہ پرنس آف منروا کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ اس صدی کی پانچویں دہائی میں کراچی کے ایک پُررونق بازار میں ایک شخص ایک پان کی دکان کے سامنے ہاتھ پھیلائے کھڑا رہتا تھا۔ کسی سے زبان سے کچھ نہیں کہتا تھا۔ معلوم ہوا کہ یہ پرنس آف منروا ہے۔ بتائیے اس کی شہرت کس کام آئی؟
اسد محمد خاں اور مشفق خواجہ نے تو صادق علی کے انتقال کے برسوں بعد ان کی تیرہ نصیبی کے بارے میں قلم اٹھایا لیکن جب وہ زندہ تھے تب بھی ان کی حالت زار پر لکھا جاتا رہا۔
گزشتہ دنوں ماضی کے ایک معتبر جریدے ’لیل ونہار‘ کے 64 برس پرانے پرچے دیکھنے کا اتفاق ہوا تو اس میں آصف جیلانی کا ایک فیچر پڑھنے کو ملا جس میں صادق علی کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:
’یہ صادق علی ہیں۔۔۔ زمانہ گزرا لیکن اب بھی بہت سوں کے دلوں میں اس زمانہ کی یاد تازہ ہے جب کہ ہندوستان بھر میں فلم ’پکار‘ کے منگل سنگھ، ’جیلر‘ کے اندھے ڈاکٹر اور ’ایک دن کے سلطان‘ کے نوجوان ہمایوں کا ہر طرف غلغلہ تھا۔
’واسنتی‘، ’الٹی گنگا‘، ’سکندر‘، ’پرکھ‘ اور ’پرتھوی ولبھ‘ کے خوب رو ہیرو کو ہر ایک سر آنکھوں پر بٹھاتا تھا اور ’ساتھی‘، ’جگ بیتی‘، ’مٹی‘، ’منجدھار‘ کے کیریکٹر ایکٹر کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا تھا۔ پردۂ سیمیں تو ایک طرف رہا نجی صحبتوں میں بھی اس کے مکالموں سے نوجوانوں کی محفلیں گرم رہتی تھیں۔
یہی وہ صادق علی ہیں جن کا ایک زمانہ میں برصغیر کی فلمی دنیا میں طوطی بولتا تھا۔ اور فلم کے شائقین انہیں منروا کا شہزادہ کہتے تھے۔ اب اس شہزادہ کی اداکار شخصیت لکڑی کی معمولی سی چھڑی کا سہارا بن گئی ہے اور یہ شہزادہ بےچارہ فالج کا مارا اپاہج فقیر بن گیا ہے۔

فلمی شائقین صادق علی کو منروا کا شہزادہ کہتے تھے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

آصف جیلانی کے اس فیچر میں صادق علی کے بارے خاصی معلومات ملتی ہیں۔ ان کا جالندھر سے تعلق تھا۔ معروف کرکٹر وزیر علی اور نذیر علی بھی انہی کے خاندان سے تھے۔ بہ اعتبار پیشہ انجینیئر۔ کان پور میں نوکری کی غرض سے گئے لیکن دل میں اداکار بننے کی لہر اٹھی تو ملازمت چھوڑ چھاڑ آغا حشر کی تھیٹر کمپنی سے جڑ گئے۔ کمپنی ختم ہوئی لیکن شوق نہیں۔
سنہ 1934 میں رنگون میں خاموش فلموں میں اداکاری کرنے لگے۔ بمبئی میں فلم انڈسٹری کے قیام سے امکانات کا نیا دریچہ کھلا۔ چند فلمی کمپنیوں میں تھوڑا عرصہ کام کیا لیکن ان کے مقدر کا ستارہ سہراب مودی کی فلم کمپنی ’منروا مووی ٹون‘ میں چمکا جس کے وہ سٹار بن گئے۔
30 کے قریب فلموں میں کام کیا۔ ہیرو بھی بنے، کریکٹر ایکٹر بھی۔ ’پکار‘ سے انہیں وہ شہرت ملی جو ہمیشہ فلم بینوں کے ذہن میں جاگزیں رہی۔
سنہ 1950 میں پاکستان چلے آئے۔ چند فلموں میں کام کیا۔ اس سے پہلے کہ ان کے قدم جمتے فالج نے انہیں زیر و زَبَر کر دیا۔ اس کے بعد ہر گزرتے دن کے ساتھ زندگی ان کے لیے تلخ سے تلخ ہوتی گئی جس کا احوال آپ نے اوپر پڑھ ہی لیا۔ سنہ 1977 میں کراچی میں ان کا انتقال ہوا۔
صادق علی اور ’پکار‘ کا ایک ساتھ ذکر لازم وملزوم ہے۔ ان کی شہرت بڑی حد تک اسی فلم کے مرہون منت رہی۔ اس فلم کی برصغیر کی فلم انڈسٹری میں بھی منفرد حیثیت ہے، اس لیے یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس فلم پر بھی بات ہوجائے کہ صادق علی کی طرح ’پکار‘ کے بارے میں بھی اردو کے نامور ادیبوں نے لکھا ہے۔
فلمی ہیروئن نسیم بانو نے جنہیں حُسنِ بے پایاں کی وجہ سے پری چہرہ نسیم کہا جاتا تھا فلم میں ملکہ نور جہاں کا کردار کیا۔

سعادت حسن منٹو نے نسیم بانو پر اپنے خاکے میں ’پکار‘ کے حوالے سے لکھا کہ ’فلم میں دو باتوں پر بہت زور تھا۔ مکالموں اور ملبوسات پر۔‘ (فوٹو: سوشل میڈیا)

سعادت حسن منٹو کی کتاب ’گنجے فرشتے‘ میں شامل نسیم بانو کے خاکے میں ’پکار‘ کا حوالہ کچھ یوں آیا ہے:
’منروا مووی ٹون کی طرف سے اس کی شاندار تاریخی فلم ’پکار‘ کا اشتہار بڑے زوروں پر ہو رہا تھا۔ پری چہرہ نسیم اس میں نور جہاں کے روپ میں پیش کی جا رہی تھی اورسہراب مودی خود اس میں ایک بڑا اہم کردار(سنگرام سنگھ) ادا کر رہے تھے۔
فلم کی تیاری میں کافی وقت صرف ہوا۔ اس دوران میں اخباروں اور رسالوں میں جو’سٹل‘ شائع ہوئے بڑے شاندار تھے۔ نسیم، نور جہاں کے لباسِ فاخرہ میں بڑی پروقار دکھائی دیتی تھی۔ ’پکار‘ کی نمائشِ عظمیٰ پر میں مدعو تھا۔ جہانگیر کے عدل و انصاف کا ایک من گھڑت قصہ تھا جو بڑے جذباتی اور تھیٹری انداز میں پیش کیا گیا تھا۔ فلم میں دو باتوں پر بہت زور تھا۔ مکالموں اور ملبوسات پر۔ مکالمے گوغیر فطری اور تھیٹری تھے لیکن بہت زور دار اور پرشکوہ تھے جو سننے والوں پر اثر انداز ہوتے تھے۔ چونکہ ایسی فلم اس سے پہلے نہیں بنی تھی، اس لیے سہراب مودی کی ’پکار‘ سونے کی کان ثابت ہونے کے علاوہ ہندوستانی صنعت فلم سازی میں ایک انقلاب پیدا کرنے کا موجب ہوئی۔ نسیم کی اداکاری کمزور تھی لیکن اس کمزوری کو اس کے خداداد حسن اور نور جہاں کے لباس نے جو اس پر خوب سجتا تھا اپنے اندر چھپا لیا تھا۔
ممتاز ادیب انتظار حسین نے یہ فلم جوانی میں دیکھی تھی۔ میں نے ان کی زبانی اس کی تعریف سنی۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ’مغل اعظم‘ کے مقابلے میں یہ فلم انہیں زیادہ پسند آئی۔ ان کا خیال تھا کہ پرتھوی راج (شہنشاہ اکبر) سے زیادہ بہتر اداکاری ’پکار‘ میں کنجی آنکھوں والے چندر موہن (شہشناہ جہانگیر) نے کی۔
انتظار حسین نے یہ بھی بتایا تھا کہ اس فلم کے شوقین جب تک شہر میں فلم کی نمائش جاری رہتی روزانہ ہی سینما کا رخ کرتے۔

ممتاز ادیب انتظار حسین کو ’مغل اعظم‘ کے مقابلے میں ’پکار‘ زیادہ پسند آئی۔ (فائل فوٹو: وائٹ سٹار)

ممتاز براڈ کاسٹر اور مصنف رضا علی عابدی کو پرانی فلموں اور گانوں سے گہری دلچسپی ہے جس کا اندازہ ان کی کتاب ’نغمہ گر‘ سے کیا جا سکتا ہے جو فلمی گیتوں کی تاریخ ہے۔ ان کے بقول فلم ’پکار‘ کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ اس میں اردو نظم اور غزل نے اڑان بھرنے کے لیے پوری طرح پر پھیلائے۔
مصرعے سج دھج سے آراستہ ہوئے، یوں روایتی غزل اور جدید نظم کی خوبیوں کو فلم کے پردے پر پیش کرنے کی پہل ہوئی اور پھر تو یہ سلسلہ نصف صدی تک چلا۔ فلم ’پکار‘ کا ایک نغمہ تو ضرب المثل بن گیا: زندگی کا ساز بھی کیا ساز ہے، بج رہا ہے اور بے آواز ہے۔
کمال امروہوی نے دلچسپ کہانی لکھی جس میں مکالمے ایسے جاندار تھے کہ کئی ایک لوگوں کے حافظے کا حصہ بن گئے۔
’تمھارا خون، خون ہے اور ہمارا خون پانی ہے
تھیٹر کے معروف ڈائریکٹر، رائٹر اور اداکار حبیب تنویر نے اپنی خود نوشت ’پردہ کھلتا ہے‘ میں سہراب مودی کو ’ویل میڈ فلم‘ کا استاد قرار دیا ہے۔
ان کے خیال میں فلم انڈسٹری میں ’بوم‘ کا آغاز ’پکار‘ سے ہوا اور یہ فلم انڈسٹری کی تاریخ میں سنگ میل کا درجہ رکھتی ہے۔ اس فلم کا منفی پہلو ان کے نزدیک یہ ہے کہ اس سے ’فلم آرٹ کا زوال اور فلم انڈسٹری کا عروج شروع ہوتا ہے۔ غالباً یہیں سے آرٹسٹ فلمی ستاروں میں بدل دیے گئے اور ایکٹر ایکٹریسوں کی اسٹار ویلیو نے فلموں کا بھاؤ بڑھا دیا۔
سہراب مودی یہ فلم نئی کاسٹ کے ساتھ دوبارہ بنانا چاہتے تھے لیکن بوجوہ ایسا نہ ہو سکا۔

آصف جیلانی کے اس فیچر میں صادق علی کے بارے خاصی معلومات ملتی ہیں۔ (فوٹو: لیل ونہار)

’پکار‘ کے بارے میں خاصی باتیں ہو گئیں، اب قارئین کی دلچسپی کے لیے اس کہانی کا خلاصہ اپنے الفاظ میں بیان کیے دیتے ہیں۔
فلم میں صادق علی نے سردار سنگرام کے بیٹے منگل سنگھ کا کردار کیا ہے جو کنور کا دیوانہ ہے۔ اس سے چھپ چھپ کر ملتا ہے۔ دونوں کےخاندانوں میں ’گمبھیر دشمنی‘ ہے۔ ایک دن منگل سنگھ محبوبہ سے مل کر نکلا تو اس کے بھائی رنجیت کو پتا چل گیا اور وہ خاندان کی ناموس کا رکھوالا بن کر اس کے تعاقب میں نکلا اور اسے جا لیا۔
اسے آمادہ پیکار دیکھ کر منگل سنگل نے بھی تلوار نیام سے نکالی۔اس لڑائی میں رنجیت کھیت رہا۔ اس اثنا میں مقتول کا باپ سردار اودھے سنگھ بھی وہاں پہنچ گیا۔اس نے منگل سنگھ کو دعوت مبارزت دی۔ اس یدھ میں بھی جیت منگل کے نام رہی۔ اودھے سنگھ گھائل ہوا اور افتاں و خیزاں سردار سنگرام کے پاس پہنچ کر اس کے بیٹے کا سر مانگا جس نے اسے یقین دلایا کہ وہ بیٹے کو  قانون کے حوالے کر دے گا۔ لیکن منگل کی ماں نے بیٹے کو گھر سے بھگا دیا تو سنگرام سنگھ کو اودھے سنگھ کے سامنے خفت اٹھانی پڑی۔ وہ بیوی پر خوب بگڑا۔
اودھے سنگھ نے انصاف کے لیے شہنشاہ جہانگیر کی زنجیر عدل ہلائی۔ بادشاہ نے داد رسی کے لیے اس سے مدعا پوچھا، اس سے پہلے کہ وہ قصۂ غم سناتا اسے قضا نے آن لیا۔
کنور سے نور جہاں نے پوچھا کہ اسے کسی پر شک ہے؟ تو منگل سنگھ کی محبت میں وہ سچ بتانے سے گریزاں رہی۔ سنگرام سنگھ نے بادشاہ کو بتایا کہ قاتل کوئی اور نہیں اس کا لخت جگر ہے۔ بادشاہ نے منگل کو گرفتار کرنے کی ذمہ داری اسے سونپی جس سے وہ عہد برآ ہوا۔
منگل نے اپنا بیان ریکارڈ کروایا۔ اس کے فرار نے اس کا مقدمہ کمزور کر دیا۔ جان کے بدلے جان کے اصول پر اسے پھانسی کی سزا دی گئی۔

حبیب تنویر نے اپنی خود نوشت ’پردہ کھلتا ہے‘ میں سہراب مودی کو ’ویل میڈ فلم ‘ کا استاد قرار دیا ہے۔ (فوٹو: فلکر)

یہ رمضان کا مہینہ شروع ہونے سے ایک دن پہلے کی بات ہے۔ احترام رمضان میں سزا پر عمل درآمد کو عیدالفطر کے دو دن بعد تک مؤخر کردیا گیا۔  سنگرام سنگھ نے نور نظر کی جاں بخشی کے لیے شہنشاہ کا منت ترلا کیا۔ اپنی خدمات کا واسطہ دیا لیکن اس کا دل نہ پسیجا اور وہ قانون کی پاسداری کے اصول پر سمجھوتا کرنے پر تیار نہ ہوا۔ ادھر کنور نے ملکہ نور جہاں کے ذریعے بادشاہ سے رحم کی اپیل کی تو وہ بھی مسترد ہوئی۔
صورت حال میں ڈرامائی تبدیلی اس وقت آئی جب ملکہ نور جہاں کا تیر لگنے سے رامو دھوبی مر گیا۔ سنگرام سنگھ کے ایما پر رانی دھوبن انصاف کے لیے بادشاہ کے در پر پہنچی۔ بادشاہ نے اس کی بپتا سن کر کہا کہ انصاف ہو گا۔
نور جہاں کی حیثیت ملکہ سے ملزمہ کی ہو گئی۔ اقرارِ جرم کے بعد وہ مجرمہ ٹھہری۔ خون کی قیمت ادا کر کے ملکہ کی جان بچا لینے کی تجویز شہنشاہ نے رد کر دی۔ دربار میں اسے سزا سنانے کی کارروائی کے دوران اس وقت نیا موڑ آیا جب جہانگیر نے کہا کہ ملکہ نے رانی دھوبن کے میاں کو مارا ہے تو اب بدلے میں وہ نور جہاں کا سہاگ اجاڑے۔ اسے حکم ملا کہ وہ جہانگیر پر تیر آزمائے جس کی اس میں ہمت نہ تھی۔
بادشاہ نے اسے بتکرار کہا کہ تعمیل ہو، تعمیل ہو، تعمیل ہو۔ اس سے پہلے کہ حکم پر عمل درآمد ہوتا، سنگرام سنگھ نے ایک تقریر کی جس میں رانی دھوبن کو خون کی قیمت لینے کی تجویز دی جو اس نے قبول کر لی۔
اس دن رمضان کی 28 تاریخ تھی۔ ملکہ کے کہنے پر بادشاہ سلامت نے عیدالفطر کی خوشی میں تمام قیدیوں کی سزا ختم کر کے انہیں رہا کرنے کا حکم جاری کیا تو منگل سنگھ بھی آزاد ہو گیا۔ بادشاہ اور ملکہ کی آشیرباد سے دونوں پریمیوں (کنور اور منگل) کے ملاپ پر فلم اختتام کو پہنچتی ہے۔

شیئر: