Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کون سے صارفین گوگل پلے سٹور استعمال نہیں کر سکیں گے؟

پاکستانی صارفین کے ذمہ انٹرنیشنل ٹیکنالوجی اداروں کے تین کروڑ 40 لاکھ ڈالر قابل ادا ہیں۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)
پاکستان میں سٹیٹ بینک کی جانب سے انٹرنیشنل ٹیکنالوجی اداروں کو کی جانے والی آن لائن ادائیگیوں کے طریقہ کار میں تبدیلی کے فیصلے کے بعد خدشہ ہے کہ پلے سٹور کے کچھ فیچرز سمیت دیگر آن لائن خدمات پاکستان میں استعمال نہیں کی جا سکیں گے۔
پاکستان کی وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی جانب سے جمعے کو ملک کے مرکزی بینک کو لکھے گئے ایک خط میں صورتحال کی نشاندہی کرتے ہوئے فیصلے میں تبدیلی کا کہا گیا ہے۔
ٹیکنالوجی کے شعبے سے وابستہ ماہرین کے مطابق سٹیٹ بینک کے فیصلے کی وجہ سے سالانہ بنیادوں پر انٹرنیشنل ٹیکنالوجی اداروں کو کی جانے والی تین کروڑ 40 لاکھ ڈالر کی رقم ادا نہیں کی جاسکے گی، جس کی وجہ سے پاکستانی صارفین کی بڑی تعداد آئندہ پلے سٹور پر خریداری نہیں کر سکے گی۔
ایسے صارفین جو مختلف موبائل ایپلی کیشنز کو خریدنے یا ان کی خدمات حاصل کرتے ہوئے ادائیگی کے لیے اپنے موبائل کریڈٹ کو استعمال کرتے تھے وہ اب یہ خدمات حاصل نہیں کر سکیں گے تاہم کریڈٹ کارڈز اور ڈیبٹ کارڈز سے یہ سہولت حاصل کی جاسکے گی۔
ٹیکنالوجی ماہرین کے مطابق کریڈٹ کارڈز کی سہولت پاکستان میں صارفین کی ایک مخصوص تعداد تک محدود ہے اس لیے موبائل صارفین کی اکثریت باالخصوص انفرادی طور پر آن لائن خدمات حاصل کرنے والے گوگل پلے سٹور سے ایپس ڈاؤن لوڈ کرنے سے محروم رہ سکتے ہیں۔
مختلف ایپلی کیشنز کو ادائیگی کے لیے استعمال کیے جانے والے اس طریقہ کار کو پاکستان میں ڈائریکٹ کیریئر بِلنگ (ڈی سی بی) کہا جاتا ہے۔
وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن، پاکستانی ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی اور چاروں موبائل آپریٹرز کی جانب سے مشترکہ طور پر سٹیٹ بینک کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ اس فیصلہ کو واپس لیا جائے جس کے تحت موبائل فون صارفین بینک کارڈز کے بغیر انٹرنیشنل اداروں کو ادائیگی نہیں کرسکتے۔
ٹیکنالوجی اور بینکنگ سے متعلق ماہرین کے مطابق 15 ستمبر کے بعد پاکستانی صارفین کی رقم گوگل سمیت دیگر انٹرنیشنل اداروں کو نہیں بھیجی گئی ہے۔ 
ڈی سی بی طریقہ کار کی معطلی کے بعد پاکستانی صارفین کی جانب سے ٹیکنالوجی سے متعلق عالمی اداروں کو کی گئی تین کروڑ 40 لاکھ ڈالر سالانہ کی رقم قابل ادا ہے۔ یہ رقم ان کے موبائل بیلنس سے کاٹی جا چکی ہے جس کے بعد یہ موبائل آپریٹرز کے پاس بھی نہیں اور ابھی تک متعلقہ اداروں کو بھی نہیں پہنچی ہے۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان نے چند ماہ قبل ٹیلی کام آپریٹرز کو ہدایت کی تھی کہ ادائیگی کے ہر کیس کو انفرادی طور پر منظوری کے لیے بھیجا جائے۔ جس کے بعد موبائل آپریٹرز کو شکوہ ہے کہ منظوری کے عمل میں تاخیر ہوتی ہے۔ نتیجتاً بڑے پلیٹ فارمز کو تشہیر کی مد میں کی جانے والی ادائیگی سمیت دیگر خدمات تعطل کا شکار ہوئی ہیں۔

جو صارفین موبائل بیلنس سے ادائیگی کرتے ہیں وہ انٹرنیشنل اداروں کی خدمات حاصل نہیں کر سکیں گے۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

پاکستانی صارفین ہوسٹنگ، لائسنسنگ، سکیورٹی فیچرز اور تکنیکی مہارتوں کے لیے انٹرنیشنل اداروں پر انحصار کرتے ہیں۔ موبائل بیلنس سے ادائیگی روکے جانے کے بعد وہ یہ خدمات حاصل نہیں کر سکیں گے۔
ٹیکنالوجی کے شعبے سے وابستہ افراد کے مطابق اس پابندی کے بعد جو صارفین گوگل، ایمیزون، فیس بک کی مالک کمپنی میٹا وغیرہ سے خدمات حاصل کرتے ہیں وہ متاثر ہوں گے۔
ادائیگیوں کے تعطل کے بعد ڈیجیٹل بینکنگ، ای کامرس، آن لائن تعلیم، صحت، کلاؤڈ سٹوریج، ڈومین رجسٹریشن، ڈیجیٹل مارکیٹنگ کے شعبے متاثر ہونے سے خدشہ ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا سے باہر بھی اس سے مسائل پیدا ہوں گے۔
خط کے مطابق ’عدم ادائیگی کی وجہ سے ڈیجیٹل خدمات میں تعطل عالمی سطح پر پاکستان اور پاکستانی افراد و اداروں کے لیے پریشانی کی وجہ بنے گا۔‘
سٹیٹ بینک کو لکھے گئے خط میں معاشی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے ملک کو درپیش مشکلات کا اعتراف کیا گیا ہے۔

شیئر: