Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکی سائنس دانوں کی ’انقلابی‘ ویکسین، کیا کینسر کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا؟

یہ تحقیق معروف سائنسی جریدے ’نیچر بایومیڈیکل انجینئرنگ‘ میں شائع ہوئی ہے (فائل فوٹو: پکسابے)
کینسر کے علاج میں ایک بڑی پیش رفت اس وقت سامنے آئی جب امریکہ کی یونیورسٹی آف فلوریڈا کے سائنس دانوں نے ایک تجرباتی ایم آر این اے ویکسین تیار کی جو جسم کے مدافعتی نظام کو ٹیومر کے خلاف مزید مؤثر بناتی ہے۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق یہ تحقیق معروف سائنسی جریدے ’نیچر بایومیڈیکل انجینئرنگ‘ میں شائع ہوئی ہے۔
تحقیق کے مطابق جب اس ویکسین کو موجودہ علاج میں استعمال ہونے والی قوت مدافعت بڑھانے والی ادویات کے ساتھ استعمال کیا گیا تو چوہوں میں ٹیومر کے خلاف زبردست ردعمل دیکھنے میں آیا۔
اس ویکسین کی خاص بات یہ ہے کہ یہ کسی خاص قسم کے کینسر یا پروٹین کو نشانہ نہیں بناتی بلکہ مدافعتی نظام کو یوں متحرک کرتی ہے جیسے وہ کسی وائرس سے لڑ رہا ہو۔ یہ اثر ٹیومر کے اندر ایک خاص پروٹین پی ڈی-ایل ون کی مقدار بڑھا کر حاصل کیا گیا جس سے علاج کے اثرات مزید بہتر ہوئے۔
تحقیق کی سربراہی کرنے والے ڈاکٹر الیاس سیور نے بتایا کہ ’یہ دریافت مستقبل میں ایسے طریقہ علاج کی بنیاد بن سکتی ہے جس میں صرف آپریشن، ریڈیئیشن یا کیموتھراپی پر انحصار نہ کیا جائے۔‘
اس تحقیق کو امریکہ کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ اور دیگر اہم اداروں کے تعاون سے مکمل کیا گیا ہے۔
اگر انسانی تجربات میں بھی ایسے ہی نتائج سامنے آتے ہیں تو یہ تحقیق ایک ایسی ویکسین کی راہ ہموار کر سکتی ہے جو مختلف اقسام کے خطرناک اور لاعلاج کینسر کی اقسام کا مؤثر علاج بن سکتی ہے۔
ڈاکٹر الیاس سیور کہتے ہیں کہ ’یہ ایک غیر متوقع دریافت ہے کہ ایک ایسی ویکسین جو کسی خاص ٹیومر یا وائرس کو ہدف نہیں بناتی، اگر وہ ایم آر این اے پر مبنی ہو، تب بھی کینسر کے خلاف اثر دکھا سکتی ہے۔‘

اس ویکسین کو ابھی صرف چوہوں پر استعمال کیا گیا ہے (فائل فوٹو: پکسابے)

انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ ہمارے لیے ایک ثبوت ہے کہ ایسی ویکسینز کو عام نوعیت کی کینسر ویکسین کے طور پر تیار کیا جا سکتا ہے جو ہر مریض کے مدافعتی نظام کو اس کے اپنے کینسر کے خلاف بیدار کر سکتی ہیں۔‘
تحقیق کے شریک مصنف ڈاکٹر ڈوان مچل نے بتایا کہ ’اب تک کینسر ویکسین پر دو نظریات غالب رہے ہیں، یا تو ایک ایسا ہدف تلاش کرنا جو زیادہ تر مریضوں میں ہو یا ہر مریض کے کینسر کے مطابق الگ ویکسین بنانا۔‘
’مگر یہ تحقیق ایک تیسرا نکتہ نظر پیش کرتی ہے، ایک ایسی ویکسین بنانا جو صرف مدافعتی نظام کو شدید ردعمل کے لیے تیار کرے اور اس سے بھی کینسر کے خلاف زبردست اثر دیکھنے میں آئے۔ یہ طریقہ عام مریضوں کے لیے بھی قابلِ استعمال ہو سکتا ہے، حتیٰ کہ ایک تیار شدہ ویکسین کی صورت میں بھی۔‘
ڈاکٹر سیور گزشتہ آٹھ سال سے ایم آر این اے اور لپڈ نینوپارٹیکلز پر مبنی جدید کینسر ویکسین پر کام کر رہے ہیں۔

یہ ویکیسن کینسر کے خلاف قوت مدافعت کو بڑھائے گی (فائل فوٹو: پکسابے)

پچھلے سال انہوں نے انسانی مریضوں پر پہلی بار ایک ذاتی نوعیت کی ایم آر این اے ویکسین کا کامیاب تجربہ کیا تھا جو تیزی سے مریض کے مدافعتی نظام کو فعال کر کے ایک مہلک دماغی کینسر، گلیوبلاسٹوما کے خلاف کامیاب ردعمل پیدا کرنے میں کامیاب ہوئی۔
اس تازہ تحقیق میں ڈاکٹر سیور کی ٹیم نے ایک عام نوعیت کی ایم آر این اے ویکسین کا تجربہ کیا جو نہ تو کسی مخصوص وائرس اور نہ ہی کسی مخصوص کینسر سیل کو نشانہ بناتی ہے بلکہ اس کا مقصد صرف مدافعتی نظام کو بھرپور طریقے سے متحرک کرنا ہوتا ہے۔
یہ ویکسین بھی اسی ٹیکنالوجی پر مبنی ہے جس پر حالیہ عالمی وبا کے دوران استعمال ہونے والی ویکسینز تیار کی گئی تھیں۔ سائنس دانوں کو اُمید ہے کہ یہ کامیابی مستقبل میں کینسر کے خلاف ایک عام، مؤثر اور کم سائیڈ ایفیکٹ والا حل ثابت ہو سکتی ہے۔

 

شیئر: