Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان کا اعلان، کیا صوبائی اسمبلیاں توڑنا آسان ہوگا؟

سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے سنیچر کو اپنا لانگ مارچ ختم کرتے ہوئے تمام صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے۔
تقریباً ایک ماہ تک جاری رہنے والے لانگ مارچ اور احتجاج کے خاتمے کا اعلان انہوں نے راولپنڈی میں اس ’سرپرائز‘ اعلان سے کیا کہ وہ توڑ پھوڑ کرنے کے بجائے اس نظام سے باہر نکلیں گے۔
عمران خان نے صوبائی حکومتوں سے باہر نکلنے کی تاریخ تو نہیں دی لیکن کہا کہ وہ تمام وزرائے اعلیٰ اور پارلیمانی پارٹیوں سے مشاورت شروع کر رہے ہیں اور جلد ہی اسمبلیوں سے نکلنے کا حتمی اعلان کریں گے۔

اسمبلیوں سے پی ٹی آئی کے استعفوں کی صورت میں کیا ہو گا؟

اس وقت پی ٹی آئی کی پنجاب، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں حکومت ہے۔
اگر عمران خان کی صوبائی وزرائے اعلٰی اور ارکان سے مشاورت کے بعد پی ٹی آئی پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اسمبلیاں توڑ دیتی ہے تو مرکزی حکومت کے لیے انتخابات کو دیر تک روکے رکھنا مشکل ہو جائے گا۔

اردو نیوز کا یوٹیوب چینل سبسکرائب کریں

پاکستان میں روایت ہے کہ چاروں صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کے انتخابات ایک ساتھ ہوتے ہیں اس لیے بڑی صوبائی اسمبلیاں ٹوٹنے کی صورت میں یا تو حکومت کو وہاں علیحدہ سے نئے انتخابات کروانے پڑیں گے یا پھر قومی اسمبلی اور باقی دو صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کر کے جلد ایک ساتھ انتخابات کروانے ہوں گے۔

عمران خان نے راولپنڈی میں اعلان کیا کہ وہ توڑ پھوڑ کرنے کے بجائے اس نظام سے باہر نکلیں گے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

دونوں صورتوں میں ایک بڑا سیاسی بحران پیدا ہو جائے گا اور حکومت مشکلات کا شکار ہو جائے گی۔
اس لیے سیاسی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ عمران خان کا یہ اعلان ملک کو سیاسی عدم استحکام کی طرف دھکیل سکتا ہے۔

کیا اعلان پر عمل درآمد بھی ہو سکے گا؟

عمران خان کے اس اعلان نے بظاہر حکومت سمیت سب کو حیران کیا ہے تاہم سیاسی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ ضروری نہیں کہ اس اعلان پر مکمل عمل درآمد بھی ہو سکے۔
اس کی وجہ تو یہ ہے کہ ماضی میں بھی عمران خان ایسے اعلانات کر چکے ہیں جن پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ انہوں نے 26 مئی کو اسلام آباد میں ڈی چوک جانے کا فیصلہ ترک کرتے ہوئے حکومت کو چھ دن کی ڈیڈ لائن دی تھی کہ اگر اس میں اسمبلیوں کی تحلیل اور الیکشن کے حوالے سے اعلان نہیں کیا گیا تو وہ اسلام آباد پوری قوت سے دوبارہ آئیں گے۔ تاہم چھ دن تو کیا چھ ماہ بعد بھی انہوں نے اسلام آباد کا دوبارہ رخ نہیں کیا۔
کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق چونکہ انہوں نے گزشتہ ماہ شروع ہونے والے لانگ مارچ سے ایسا سیاسی ماحول پیدا کر دیا تھا کہ اسلام آباد جائے بغیر ان کی واپسی کو ناکامی سمجھا جاتا، اس لیے انہیں کوئی ایسا اعلان کرنا تھا جس سے ان کے سیاسی حامی مطمئن ہو سکیں۔

پاکستان میں روایت ہے کہ چاروں صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کے انتخابات ایک ساتھ ہوتے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

تاہم اعلان کے بعد چونکہ کوئی تاریخ نہیں دی گئی اور مشاورت کا بھی کہا گیا ہے تو ہو سکتا ہے مشاورت کے بعد وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی ہی کر لیں۔

کیا اسمبلیاں توڑنا آسان ہو گا؟

اگر عمران خان اس بار اپنے اعلان پر عمل درآمد کرنے بھی لگیں تو ان کے راستے میں کئی رکاوٹیں ہیں۔ سب سے بڑی رکاوٹ تو وزیراعلٰی پنجاب پرویز الہی ثابت ہو سکتے ہیں۔
پرویز الٰہی ان کی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق کے رہنما ہیں تاہم وہ اپنی علیحدہ شناخت رکھتے ہیں اور پنجاب خاص کر گجرات میں ان کے حالیہ ترقیاتی کاموں سے ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ انتخابات سے قبل اپنی حکمرانی سے سیاسی قوت میں اضافہ چاہتے ہیں۔

اردو نیوز کا فیس بک پیج لائک کریں

پرویز الٰہی جو پی ٹی آئی کے راولپنڈی کے جلسے میں بھی شریک نہیں ہوئے اور اس سے قبل عمران خان پر حملے کے بعد ان کی مرضی کی ایف آئی ار درج کرنے میں بھی پس و پیش سے کام لیتے رہے ہیں، ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ عمران خان کے ایک اشارے پر اسمبلی توڑ دیں گے، ایک غلط فہمی بھی ہو سکتی ہے۔
اگر پرویز الٰہی نہ مانے تو عمران خان اس پوزیشن میں نہیں کہ انہیں اسمبلیاں توڑنے پر مجبور کر سکیں کیونکہ اس صورت میں اگر وہ پی ٹی آئی کے 150 سے زائد ایم پی ایز کی حمایت سے محروم بھی ہو جائیں تو وہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی حمایت سے وزیراعلٰی برقرار رہ سکتے ہیں۔

پرویز الٰہی پی ٹی آئی کے اتحادی ہیں تاہم وہ اپنی علیحدہ شناخت رکھتے ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پی ڈی ایم کی طرف سے مزاحمت

دوسری طرف مرکز میں حکمران پی ڈی ایم اتحاد بھی صوبائی اسمبلیاں توڑنے کی مزاحمت کرے گا۔
جیو ٹی وی سے بات کرتے ہوئے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ عمران خان کو اسمبلیاں توڑنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
اس کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’اگر کسی صوبائی اسمبلی کے 20 فیصد ارکان صوبے کے وزیراعلٰی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر کے اسمبلی اجلاس بلا لیں تو آئین کے مطابق متعلقہ وزیراعلٰی اسمبلیاں نہیں توڑ سکتا۔‘
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ’پنجاب میں پی ڈی ایم کی طرف سے ایسی تحریک کا مسودہ پہلے ہی تیار ہے اور جوں ہی عمران خان مشاورت کا سلسلہ شروع کریں گے یہ تحریک پنجاب اسمبلی میں پیش کر دی جائے گی۔‘
ان کے مطابق ’یہی عمل صوبہ خیبر پختونخوا میں بھی دہرایا جائے گا۔‘
اس کے بعد جوڑ توڑ کا عمل شروع ہو سکتا ہے اور پنجاب میں خاص طور پر مسلم لیگ ن اگر چند پی ٹی آئی ارکان کو مستعفی کروا دے تو سادہ اکثریت سے صوبے میں اپنی حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ سکتی ہے۔

شیئر: