Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’آزادی لانگ مارچ‘، ماضی کی تحریکوں جیسا یا مختلف؟

پی ٹی آئی کا لانگ مارچ عمران خان پر حملے کے بعد عارضی تعطل کا شکار ہو گیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے 26 نومبر کو راولپنڈی پہنچنے کا اعلان کیا ہے۔
27 کتوبر کو لاہور سے شروع ہونے والا احتجاجی مارچ، تین نومبر کو سابق وزیراعظم پر حملے کے بعد ایک ہفتے کے لیے معطل کر دیا گیا تھا۔ یہ مارچ کبھی رکتے کبھی چلتے سنیچر 26 نومبر کو راولپنڈی پہنچ رہا ہے۔

یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے طویل سیاسی لانگ مارچ بن گیا ہے؟

سنہ 2014 میں عمران خان نے اسلام آباد میں 126 دنوں کا طویل دھرنا دیا تھا جس کے شرکا ایک ہی جگہ مقیم رہے تھے۔ اس کے علاوہ بھی پاکستان میں بہت سے احتجاجی مارچ نکالے جاتے رہے ہیں۔
لیکن تقریباً تین ہفتوں کے طویل دورانیے کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف کا موجودہ مارچ پاکستان کی تاریخ کا سب سے طویل احتجاجی لانگ مارچ قرار دیا جا سکتا ہے۔
عمران خان نے حالیہ دنوں میں اپنے ایک خطاب میں نو ماہ تک اسے مختلف انداز اور طریقہ کار سے جاری رکھنے کا عندیہ بھی دیا تھا۔
یہ دلچسپ حقیقت ہے کہ لانگ مارچ کی اصطلاح اور روایت متعارف کروانے والے ماؤ زے تُنگ کا لانگ مارچ 370 دن تک جاری رہا تھا۔

ماؤ زے تُنگ کے مارچ کے آغاز میں ایک لاکھ لوگ شریک تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

1935 میں شروع ہونے والے اس مارچ کے دوران ماؤ کی ریڈ آرمی نے چھ ہزار میل کا سفر کیا تھا۔
عمران خان کا لانگ مارچ لاہور سے راولپنڈی کے درمیان جی ٹی روڈ پر رواں دواں ہے۔ اس کے برعکس چین کے رہنما کا مارچ پہاڑوں، میدانوں اور چراہ گاہوں کو عبور کرتا ہوا ملک کے 11 صوبوں سے گزرا تھا۔
جاپان کی ’استعماری حکومت سے چھٹکارے کے لیے‘ ماؤ زے تُنگ کے مارچ کے آغاز میں ایک لاکھ لوگ شریک تھے جن میں اکثریت کسانوں اور کاشت کاروں کی تھی۔ جب اس کا اختتام ہوا تو 25 سے 30 ہزار لوگ باقی رہ گئے تھے۔
پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے پہلے ہفتے میں اس کے چیئرمین پر ہونے والے قاتلانہ حملے کے بعد یہ عارضی تعطل کا شکار ہو گیا تھا۔
چین میں کمیونسٹ پارٹی کے چیئرمین ماؤ زے تُنگ کے مارچ کو پورے سفر کے دوران دشمن کے حملوں کا مسلسل سامنا رہا تھا۔
ان حملوں میں ماؤ کے قریبی رشتہ دار بھی جان سے گئے تھے۔ اگر ان کی دشمنوں کے ساتھ جھڑپوں کے عرصے کو شمار کیا جائے تو ان کے سفر کے 15 دن کے برابر وقت لڑائی میں گزرا۔

عمران خان کا لانگ مارچ لاہور سے شروع ہوا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

پی ٹی آئی نے اپنے آزادی مارچ کو سیاسی مصلحتوں یا کسی اور حکمت عملی کے باعث سست رفتار رکھا ہوا ہے۔ جی ٹی روڈ پر واقع مختلف شہروں میں دن کو جلسوں میں شرکت کے بعد شرکا رات کو اپنے گھروں یا جائے رہائش کا رخ کرتے ہیں۔
چین کی ریڈ آرمی کے قافلے کے شرکا نے تقریباً 56 دن آرام کی غرض سے پڑاؤ ڈالے رکھا تھا۔ انہوں نے 235 روز دن کے اُجالے میں جب کہ 18 راتیں مارچ کرتے ہوئے گزاریں۔ یہ قافلہ ایک دن میں اوسطاً 17 میل فاصلہ طے کرتا رہا۔
عمران خان جلوس کے درمیان اپنے مخصوص کنٹینر پر سوار رہتے ہیں۔ شرکا کے جذبات کو گرمانے کے لیے ڈی جے کے مخصوص میوزک اور پاکستان تحریک انصاف کے ترانوں اور مطالبات پر مبنی احتجاجی نعروں کی گونج میں سفر کیا جاتا ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے اس مارچ کا مقصد ’حقیقی آزادی‘ کا حصول قرار دیا ہے۔
چین کے لانگ مارچ کی قیادت کرتے ہوئے چیئرمین ماؤ زے تُنگ سفید رنگ کے مخصوص گھوڑے پر سفر کیا کرتے تھے۔ ان کے مارچ میں ڈراموں اور رقص کرنے والوں کی مخصوص منڈلیاں اپنا کھیل پیش کیا کرتی تھیں۔

ماؤ زے تُنگ کے مارچ کو پورے سفر کے دوران دشمن کے حملوں کا مسلسل سامنا رہا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

مارچ میں شریک کاشت کار ’جاگیرداروں کو تباہ کر دو‘ اور ’زمین کو تقسیم کرو‘ کے نعرے کورس کی شکل میں دہراتے تھے، جبکہ اس مارچ کا نعرہ تھا ’جاپانیوں سے لڑنے مغرب جاؤ۔‘
ماؤ زے تُنگ نے لانگ مارچ کے اختتام پر اپنے خطاب میں کہا کہ ایک لحاظ سے سرخ فوج ناکام ہو گئی کہ وہ اپنی حقیقی پوزیشن قائم نہ رکھ سکی۔ مگر ایک حوالے سے یہ ان کی فتح ہے کہ لانگ مارچ مکمل ہو گیا ہے۔
عمران خان کا لانگ مارچ کتنا نتیجہ خیز ہوتا ہے اس کا انحصار ان مطالبات کے پورا ہونے پر ہے۔
ملک میں فوری الیکشن کے انعقاد کے امکانات کی صورت میں کسی حد تک وہ کہہ سکیں گے کہ یہ مارچ کامیابی سے ہمکنار ہوا ہے۔ دوسری صورت میں شاید وہ ایک طویل احتجاج پر مبنی لانگ مارچ کی طرف جائیں۔
کیا عمران خان وہ پہلے سیاسی رہنما ہیں جنہوں نے ملک میں انتخابات کے انعقاد کے لیے سڑکوں پر احتجاج کا راستہ اپنایا ہے؟
اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں پاکستان کی سیاسی تحریکوں اور احتجاجی جلوسوں کی تاریخ کا جائزہ لینا ہو گا۔

صدر ایوب خان کے خلاف 1967 میں اپوزیشن جماعتوں نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے اتحاد تشکیل دیا تھا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

الیکشن کے مطالبے پر مبنی احتجاجی مارچ

پاکستان میں سنہ 1956 کے آئین کے نفاذ کے بعد انتخابات کا مطالبہ کیا جاتا رہا، مگر اسے جلوسوں میں مطالبے کی شکل مسلم لیگ کے صدر خان عبدالقیوم خان نے دی۔
اکتوبر 1958 کے پہلے ہفتے میں انہوں نے جی ٹی روڈ پر ہی جہلم سے گجرات تک 32 میل لمبا جلوس نکالا۔
اس احتجاجی جلوس کا بنیادی مطالبہ ملک میں انتخابات کی تاریخ کا حصول تھا۔
اُس وقت کی موجودہ دور کے ساتھ ایک حیرت انگیز سیاسی مماثلت یہ ہے کہ آج کی طرح اس وقت ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتیں اتحادی حکومت کا حصہ تھیں۔ ان میں حسین شہید سہروردی کی عوامی لیگ، ڈاکٹر خان صاحب کی ری پبلکن پارٹی اور خان عبدالغفار خان کی نیشنل عوامی پارٹی شامل تھی۔
اس دور کی مسلم لیگ کے صدر صوبہ سرحد کے سابق وزیراعلٰی خان عبدالقیوم خان تھے۔ انہوں نے میاں ممتاز دولتانہ، راجہ غضنفر علی خان اور دیگر رہنماؤں کے ساتھ جی ٹی روڈ پر واقع سوہاوہ سے اپنے احتجاجی مارچ کا آغاز کیا۔

بے نظیر بھٹو نے 1997 میں متحدہ اپوزیشن کے ساتھ مل کر نئے انتخابات کے لیے لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اس سال کے 15 نومبر تک انتخابات کا اعلان نہ ہونے کی صورت میں انہوں نے سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کی دھمکی بھی دی۔
اس دور کے اخبارات نے لکھا کہ جب ان کا جلوس گجرات پہنچا تو اس کا ایک سرا سرائے عالمگیر جبکہ دوسرا گجرات شہر میں تھا۔ جلوس میں تین ہزار گھوڑے اور ایک ہزار اونٹ بھی شامل تھے۔
آج کے پاکستان میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں شامل اکثر جماعتیں حکمراں اتحاد کا حصہ ہیں۔ صدر ایوب خان کے خلاف 1967 میں بھی اپوزیشن جماعتوں نے اسی نام سے اتحاد تشکیل دیا تھا۔ جس نے طویل احتجاجی تحریک منظم کی اور ملک میں فوری انتخابات کا مطالبہ کیا۔
نومبر 1968 میں ایوب خان نے اپوزیشن کے انتخابات کے مطالبے کو جزوی طور پر مانتے ہوئے مقررہ وقت پر براہ راست انتخابات کروانے اور خود صدارتی امیدوار نہ بننے کی پیشکش کی۔ مگر اپوزیشن جماعتیں پارلیمانی نظام حکومت کے قیام اور فوری انتخابات کے انعقاد کے مطالبات پر اصرار کر رہی تھیں۔
بے نظیر بھٹو نے جولائی 1993 میں متحدہ اپوزیشن کے ساتھ مل کر ملک میں فوراً نئے انتخابات کے لیے لانگ مارچ کا اعلان کیا۔

1993 میں بے نظیر بھٹو کے نواز شریف کے خلاف لانگ مارچ کے آغاز سے قبل ہی صدر اور وزیراعظم اپنے عہدوں سے مستعفی ہو گئے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اس سے قبل انہوں نے نومبر 1992 کو نواز شریف حکومت کے خلاف کراچی سے لانگ مارچ کا آغاز کیا تھا۔ یہ مارچ خیبر میل کے ذریعے 26 نومبر کو راولپنڈی پہنچ کر اختتام پذیر ہوا۔
11 جولائی 1993 کو متحدہ اپوزیشن نے نواز شریف سے اسمبلیاں تحلیل کر کے انتخابات کا مطالبہ کیا۔ وزیراعظم کے انکار پر انہوں نے 16 جولائی کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کر دیا۔

وزرائے اعظم کے استعفوں کے لیے لانگ مارچ

ملک میں انتخابات کے فوری انعقاد کے ساتھ ساتھ پاکستان تحریک انصاف وزیراعظم کے فوری استعفے کا نعرہ بھی بلند کر رہی ہے۔ ماضی میں متعدد بار اپوزیشن پارٹیوں نے سربراہ حکومت کی فراغت کے لیے احتجاجی جلوس اور مارچ منظم کیے۔ 
بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں اس وقت کے اپوزیشن لیڈر نواز شریف نے جولائی 1994 میں وزیراعظم کے استعفے کے لیے تحریک نجات کا اعلان کیا۔ 15 اگست کو اپوزیشن کے اراکین قومی اسمبلی نے سٹینڈنگ کمیٹیوں سے استعفے دے دیے۔

بے نظیر بھٹو کے خلاف جماعت اسلامی کے دھرنے کے ایک ہفتے بعد فاروق لغاری نے ان کی حکومت ختم کر دی تھی۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

صدر اور وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ کرنے والی اپوزیشن نے 11 ستمبر 1994 کو نواز شریف کی سربراہی میں تحریک نجات کا آغاز کیا۔ انہوں نے خیبر میل کے ذریعے لاہور سے راولپنڈی کے سفر کے دوران مختلف شہروں میں جلسوں سے خطاب کیا۔ یہ مارچ بغیر کسی نتیجے کے راولپنڈی پہنچ کر اختتام پذیر ہوا۔
بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت کے آخری دنوں میں جماعت اسلامی کے اس وقت کے امیر قاضی حسین احمد نے حکومت کے خاتمے کے لیے لانگ مارچ اور اسلام آباد میں دھرنے کا اعلان کیا۔
ان کے احتجاج کا پہلا مرحلہ جون 1996 میں راولپنڈی سے اسلام آباد میں داخل ہونے کی کوشش کی صورت میں تھا۔ اس وجہ سے مری روڈ تصادم کا مرکز بنا اور تین افراد جان کی بازی ہار گئے۔
اسی سال 27 اکتوبر کو انہوں نے ایک بار پھر اسلام آباد میں دھرنا دینے کا پروگرام بنایا۔ اس روز اسلام آباد اور راولپنڈی میں بدترین فسادات ہوئے۔ اگلے روز مظاہرین پولیس کا گھیرا توڑ تے ہوئے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔

2009 میں نواز شریف اور وکلا رہنماؤں نے ججوں کی بحالی کے لیے لاہور سے اسلام آباد کا رخ کیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

نواز شریف کے دوسرے دور میں سات ستمبر 1999 کو حکومت کے خلاف ایک گرینڈ اپوزیشن الائنس تشکیل دیا گیا۔ پاکستان تحریک انصاف، عوامی تحریک اور عوامی نیشنل پارٹی سمیت دیگر جماعتیں اس کا حصہ تھی۔ ان جماعتوں نے اپنا یک نکاتی منشور’نواز ہٹاؤ وفاق بچاؤ‘ قرار دیا تھا۔
سنہ 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو دو بار احتجاجی لانگ مارچ کا سامنا کرنا پڑا۔ پہلی دفعہ مارچ 2009 میں نواز شریف اور وکلا رہنماؤں نے ججوں کی بحالی کے لیے لاہور سے اسلام آباد کا رخ کیا۔
دوسری دفعہ جنوری 2013 میں پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری نے اسلام آباد میں ’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘ کے نعرے کے ساتھ دھرنا دیا۔
مسلم لیگ نواز کے تیسرے دور حکومت میں شاہد خاقان عباسی کی وزارت عظمٰی کے وقت نومبر 2017 میں انتخابی فارم میں مبینہ تبدیلی کے خلاف تحریک لبیک پاکستان نے اسلام آباد میں داخلے کے مقام فیض آباد پر دھرنا دے کر جڑواں شہروں کے درمیان راستے مسدود کر دیے۔ 22 دن طویل دھرنے کا مطالبہ حکومت کا خاتمہ تھا۔

ذوالفقار علی بھٹو اپنے ساتھیوں کے ساتھ تعزیت کے لیے مقتول طالب علم عبدالحمید کے گھر گئے تھے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پی ٹی آئی کی حکومت کے لیے پہلا چیلنج اکتوبر 2019 میں جمیعت علمائے اسلام کے قائد فضل الرحمان کا اسلام آباد میں آزادی مارچ کے نعرے کے ساتھ ڈیرے ڈالنا تھا۔ انہوں نے اپنے ہزاروں حامیوں کے ساتھ کئی دن تک اسلام آباد میں دھرنا دیے رکھا۔
عمران خان کی حکومت کے خلاف اپوزیشن جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے الگ الگ احتجاجی جلسے جلوس منظم کیے۔ حکومت کے خاتمے کا نعرہ بلند کرنے والے یہ احتجاج بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوئے۔

احتجاجی تحریکوں میں قتل کا چرچا 

پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے آغاز سے ہی کینیا میں پراسرار طور پر ہلاک ہو نے والے سینیئر صحافی ارشد شریف کا تذکرہ غالب رہا ہے۔
عمران خان نے اپنی تقریروں اور بیانات میں مقتول صحافی کا بار بار تذکرہ کیا، اور تواتر سے ان کے قتل پر سوالات اٹھائے ہیں۔ پی ٹی آئی کے جلسے جلوسوں میں ارشد شریف کی تصویر سٹیج پر نظر آتی رہی۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نومبر کے مہینے میں ہی ایک نوجوان طالب علم کا قتل ایوب خان کے خلاف جاری تحریک کی تیزی کا باعث بن گیا تھا۔

عمران خان نے اپنی تقریروں اور بیانات میں تواتر سے ارشد شریف کے قتل پر سوالات اٹھائے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

7 نومبر 1968 کو راولپنڈی پولی ٹیکنیک کالج کے 17 سالہ طالب علم عبدالحمید پولیس کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ اس قتل کے بعد پورے ملک کی طلبہ یونینز احتجاج اور پُرتشدد تحریک میں کود پڑیں۔
اس روز ایوب خان کے خلاف جاری تحریک کی توانا آواز ذوالفقار علی بھٹو نے پشاور سے راولپنڈی آنا تھا۔ جہاں پر ٹیکنالوجی کالج کے طلبہ ان کے استقبال کے لیے جمع تھے۔
مقامی پولیس نے کالج کی طرف جانے والی ٹریفک کو بند کر دیا۔ جس کے باعث ذوالفقار علی بھٹو طلبہ سے مختصر خطاب کے بعد ہوٹل چلے گئے۔
طلبہ بھٹو کی واپسی پر خطاب کا انتظار کر رہے تھے کہ پولیس نے ان پر شیلنگ کی۔ اس تصادم میں کالج کے ایک طالب علم کی موت واقع ہو گئی۔
مقتول عبدالحمید راولپنڈی کے نواحی علاقے پنڈی گھیب کا رہنے والا تھا۔ اگلے روز بھٹو اپنے ساتھیوں کے ساتھ تعزیت کے لیے اس کے گھر پہنچ گئے۔ جس نے طلبہ برادری کے ساتھ ساتھ دیگر طبقات کو بھی حکومت کے خلاف صف آرا کر دیا۔
راولپنڈی میں گورڈن کالج کے طلبہ کی پولیس کے ساتھ ہوٹل کے سامنے ذوالفقار علی بھٹو کی موجودگی میں جھڑپ نے بھی پورے ملک کی طلبہ برادری کو غضب ناک کر دیا۔

2017 میں تحریک لبیک پاکستان کا احتجاج وزیر قانون کے استعفے پر ختم ہوا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

مارچ، احتجاج اور دھرنوں کے نتائج

سابق وزیراعظم عمران خان کے ’حقیقی آزادی‘ کے نعرے اور احتجاج کے نتائج کیا ہوں گے اس کا فیصلہ آنے والے دنوں میں ہو گا۔
تاہم ماضی میں اس طرح کی سرگرمیوں کے مختلف نتائج نکلتے رہے ہیں۔
تین مختلف مواقع پر مارچ اور احتجاج کی اپیل ملک میں مارشل لا لگنے کی وجہ سے ختم ہو کر رہ گئی۔ سنہ 1958 میں خان عبدالقیوم خان کے مارچ کے تین روز بعد ایوب خان نے مارشل لا نافذ کر دیا تھا۔
اسی طرح ایوب خان کے خلاف جاری اپوزیشن کی تحریک بھی جنرل یحیٰی خان کے اقتدار پر قبضے کے بعد دم توڑ گئی۔ جبکہ پرویز مشرف کی فوجی بغاوت کی وجہ سے نواز شریف کے خلاف اپوزیشن کو تحریک چلانے کی مہلت ہی نہ مل سکی۔
بے نظیر بھٹو کے نواز شریف کے خلاف لانگ مارچ کے آغاز سے قبل ہی ان کی اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل عبدالوحید کاکڑ سے ملاقات کے بعد 18 جولائی 1993 کو صدر اور وزیراعظم اپنے اپنے عہدوں سے مستعفی ہو گئے تھے۔
اسی طرح بے نظیر بھٹو کے خلاف جماعت اسلامی کے دھرنے کے ایک ہفتے بعد نومبر 1996 میں فاروق لغاری نے ان کی حکومت ختم کر دی تھی۔

پرویز مشرف کی فوجی بغاوت کی وجہ سے نواز شریف کے خلاف اپوزیشن کو تحریک چلانے کی مہلت ہی نہ مل سکی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

سنہ 2017 میں مسلم لیگ ن کی حکومت کے خلاف مذہبی جماعت کا احتجاج وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے اور مجوزہ قانون سازی واپس کرنے کی یقین دہانی پر ختم ہو گیا تھا۔
اعلٰی عدلیہ کے ججوں کی بحالی کے لیے سنہ 2009 میں ہونے والا مارچ گوجرانوالہ پہنچا ہی تھا کہ حکومت نے ان کا مطالبہ مان لیا۔
نواز شریف کی پیپلز پارٹی کے خلاف تحریک نجات، طاہر القادری کا پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف دھرنا اور مولانا فضل الرحمن کا عمران خان حکومت کے خلاف احتجاج بغیر کوئی نتائج پیدا کیے ختم ہو گئے تھے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ 26 نومبر کو عمران خان کے لانگ مارچ کے نتائج ماضی کی ان مثالوں میں سے کسی سے مماثلت پیدا کرتے ہیں یا نہیں۔
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کا اختتام کوئی نئی سیاسی مثال قائم کر دے یا کم از کم ماو زے تُنگ کے لانگ مارچ کی طرح طویل المدت مارچ کی شکل اختیار کر لے، جس کا اشارہ وہ خود بھی دے چکے ہیں۔

شیئر: