Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسمبلیوں سے باہر آنے کا اعلان قابل عمل یا سیاسی چال؟

سلمان غنی کے مطابق ’اسمبلیاں ٹوٹیں گی تو سب ٹوٹیں گی ورنہ یہ تماشا یونہی لگا رہے گا۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے صوبائی اسمبلیوں سے باہر آنے کے بعد جہاں یہ کہا جا رہا ہے کہ عمران خان نے قبل از وقت انتخابات کے لیے آخری پتہ کھیل دیا ہے، وہیں پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں صوبائی اسمبلیوں کو بچانے اور بالخصوص پنجاب میں اپنی حکومت واپس لینے کے لیے متحرک ہوگئی ہے۔  
اس ساری صورت حال میں پنجاب کے وزیراعلیٰ پرویز الٰہی ایک بار پھر اہمیت اختیار کرگئے ہیں۔  
ق لیگ کے اپنے ذرائع کے مطابق تحریک انصاف اور ق لیگ کے اتحاد کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ پنجاب اسمبلی اپنی مدت پوری کرے گی یا کم از کم اس وقت تک قائم رہے گی جب تک پی ڈی ایم کی وفاقی حکومت موجود رہے گی۔  
ق لیگ کے ایک رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ عمران خان نے لانگ مارچ کے اختتامی خطاب میں اپنے بیان سے پہلے پرویز الٰہی کو اعتماد میں لیا تھا یہی وجہ ہے کہ ق لیگ کی جانب سے حیرانگی پر مبنی ردعمل بھی سامنے نہیں آیا۔ 
تجزیہ کار سمجھتے ہیں تحریک انصاف کے لیے کے پی اسمبلی توڑنا آسان ہے، لیکن پنجاب اسمبلی توڑنے کے لیے انھیں بہت سے پاپڑ بیلنے پڑ سکتے ہیں۔  
دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ ن کے اہم رہنما اور وزیر دفاع خواجہ آصف نے بتایا ہے کہ پی ڈی ایم نے پنجاب میں حکومت واپس لینے کے لیے ہوم ورک شروع کر دیا ہے۔  
تجزیہ کاروں کے مطابق پرویز الٰہی اگر پی ڈی ایم کے ساتھ ہاتھ ملا لیتے ہیں تو وہ وزیراعلیٰ رہتے ہوئے اسمبلی کی مدت پوری کرسکتے ہیں اور اس کے ساتھ پنجاب میں سپیکر کے خلاف عدم اعتماد لا کر تحریک انصاف کے ممکنہ استعفوں کے ساتھ وہی سلوک کیا جا سکتا ہے جو قومی اسمبلی میں کیا گیا ہے۔  
کچھ حلقوں کی جانب سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پرویز الٰہی کی جانب سے تحریک انصاف کا ساتھ چھوڑنے کی صورت میں خود تحریک انصاف کے کئی ارکان مستعفی ہونے سے انکار کر دیں۔ 
سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر آمنہ محمود کے مطابق عمران خان کے ایک مہینہ طویل لانگ مارچ کا بلا روک ٹوک انعقاد اسی صورت میں ممکن ہو سکا کہ ان کی پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں حکومت تھی ورنہ 25 مئی کو پنجاب کے کسی شہر سے کسی کو باہر نہیں نکلنے دیا گیا۔
’اسی طرح عمران خان 25 مئی سے قبل ممکنہ گرفتاری سے بچنے کے لیے کے پی میں رہے کہ وہاں ان کی حکومت تھی۔ موجودہ حالات میں اسمبلیوں سے باہر آنے کا اعلان حکومت کو دباو میں لانے کی چال تو ہوسکتا ہے لیکن عمران خان کے اپنے سیاسی حالات ایسےکسی فیصلے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔‘

آمنہ محمود کے مطابق مونس الٰہی کا بیان اپنی جگہ، لیکن پرویز الٰہی کی جانب سے اسمبلی تحلیل کرنے پر تیار ہونا ممکن نہیں۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

ان کے مطابق مونس الٰہی کا بیان اپنی جگہ، لیکن پرویز الٰہی کی جانب سے اسمبلی تحلیل کرنے پر تیار ہونا ممکن نہیں کیونکہ ان کی جماعت کا ہمیشہ سے موقف رہا ہے کہ اسمبلیوں کو اپنی مدت مکمل کرنی چاہیے۔ اسی وجہ سے مونس الٰہی نے اپنی قومی اسمبلی کی نشست سے آج تک استعفیٰ نہیں دیا۔  
پنجاب کی سیاست کو قریب سے دیکھنے والے تجزیہ کار سلمان غنی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’تحریک انصاف نے استعفوں کا اعلان حکومت کو پریشان کرنے کے لیے دیا ہے۔ لانگ مارچ کو ختم کرنے کے لیے ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور آپشن ہی نہیں تھا۔ اگر اسمبلیوں سے باہر آنا تھا تو اس کے لیے اعلان کی نہیں بلکہ  اپنے  چیف منسٹرز سے کہہ کر اسمبلیاں تحلیل کرنے کی سمری بھجوانی تھی۔ مگر انہیں معلوم ہے کہ اس کا مطلب کیا ہے۔‘  
انہوں نے کہا کہ ’اس سے پہلے قومی اسمبلی سے استعفے دیے آج تک مراعات اور لاجز سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ اب بھی ان کے استعفوں کے اعلان پر عمل درآمد کا کم امکان ہے۔‘ 
ان کا کہنا تھا کہ پرویز الٰہی یقیناً اہم ہو گئے ہیں کیونکہ ان کو جنہوں نے بٹھایا ہے وہ ان کے اشارے کے منتظر ہیں اور اب حالات کافی حد تک بدل چکے ہیں۔  
سلمان غنی کے مطابق ’اسمبلیاں ٹوٹیں گی تو سب ٹوٹیں گی ورنہ یہ تماشا یونہی لگا رہے گا۔‘  
پاکستان تحریک انصاف کے اعلان کے مطابق اگر تحریک انصف کے تمام منتخب ارکان استعفے دے دیں تو تحریک انصاف کے استعفوں کے نتیجے میں قومی اسمبلی کی 123 ، پنجاب اسمبلی کی 297، خیبر پختونخواہ کی 115 ، سندہ اسمبلی کی 26 اور بلوچستان کی دو نشستیں یعنی کل 563 نشتیں خالی ہو جاتی ہیں، جبکہ ملک میں عام انتخابات کے دوران 859 نشستوں پر براہ راست انتخاب ہوتے ہیں۔  
تجزیہ کار اجمل جامی کے مطابق ’ایسی صورت میں عمران خان کا اعلان بظاہر ایک عمدہ سیاسی سٹروک ہے جس نے انہیں مزید متعلقہ بنا دیا ہے۔ جس سے مذاکرات اور بات چیت لازم ہوا چاہتی ہے۔‘

کے پی میں اپوزیشن جماعتوں نے بھی اسمبلی کی تحلیل روکنے کے لیے عدم اعتماد لانے پر غور شروع کر دیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے سوال اٹھایا کہ ’غیر سیاسی ہوئی قوت کی عدم موجودگی میں سیاسی جماعتوں کو گرینڈ ڈائیلاگ کے لیے بٹھائے گا کون؟ زرداری صاحب دوبارہ پنجاب آ بیٹھے ہیں، لہذا سٹیج لاہور کا ہی پہلے سجے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر پی ٹی آئی سے موثر سیاسی انگیجمنٹ نہیں کی جاتی تو وہ پنجاب میں عدم اعتماد لانے سے پہلے سرپرائز دے سکتی ہے۔ بظاہر اب حالات قبل از وقت انتخاب کی جانب ہی جائیں گے۔‘  
دوسری جانب کے پی میں اپوزیشن جماعتوں نے بھی اسمبلی کی تحلیل روکنے کے لیے عدم اعتماد لانے پر غور شروع کر دیا ہے۔ اگرچہ ان کے پاس نمبر پورے نہیں ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ کچھ عرصے تک تحریک انصاف کو عملی قدم اٹھانے سے روکنے میں ضرور کامیاب ہوسکتے ہیں۔  

شیئر: