Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہماری فوج شام میں زمینی کارروائی کے لیے تیار ہے، ترک حکام

آپریشن کا آغاز کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا، صدر پر منحصر ہے۔ فوٹو اے ایف پی
ترکیہ نے کہا ہے کہ ہماری  فوج کو شمالی شام میں زمینی دراندازی کے لیے تیار ہونے کے لیے صرف چند دن درکار ہیں اور ایسا فیصلہ  کابینہ کے اجلاس میں ہو سکتا ہے۔
روئٹرز نیوز ایجنسی کے مطابق ترکی سے روزانہ فائر کیے جانے والے گولے ایک ہفتے سے کرد ملیشیا کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں جب کہ جنگی طیاروں نے فضائی حملے بھی کیے ہیں۔

کردستان ورکرز پارٹی نے استنبول حملے کی تردید کی تھی۔ فوٹو عرب نیوز

واضح رہے کہ اس کشیدگی میں اضافہ دو ہفتے قبل استنبول میں ہونے والے بم حملے کے بعد ہوا ہے جس کا الزام انقرہ نے شام میں موجود کرد ملیشیا پر لگایا تھا تا ہم کردوں کی جانب سے اس حملے میں ملوث ہونے انکار کیا گیا ہے۔
ترک فوج کے سینئر اہلکار نے بتایا ہے کہ مسلح افواج کو تقریباً مکمل طور پر تیار ہونے کے لیے صرف چند دن درکار ہیں۔ اہلکار نے مزید کہا ہے کہ ترکیہ کے اتحادی شامی باغی جنگجو 13 نومبر کے استنبول میں ہونے والے بم دھماکے کے چند دن بعد ہی ایسی کارروائی کے لیے تیار تھے۔
ہمیں آپریشن کا آغاز کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا، یہ صرف صدر کی جانب سے دئیے جانے والے اشارے پر منحصر ہے۔

ترکی سے فائر کیے جانےوالے گولے کرد ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ فوٹو روئٹرز

ترکی نے پہلے شام میں کرد ملیشیا کے خلاف فوجی حملے شروع کیے ہیں۔ اسے کالعدم کردستان ورکرز پارٹی(پی کے کے ) کا ایک ونگ سمجھتے ہوئے جسے ترکیہ، امریکہ اور یورپی یونین دہشت گرد گروپ قرار دیتے ہیں۔
واضح رہے کہ اس سے قبل کردستان ورکرز پارٹی کی جانب سے بھی استنبول حملے کی تردید کی گئی ہے، استنبول حملے میں ایک پرہجوم مقام پر دھماکے میں چھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
ترکیہ کے صدر طیب اردگان نے کہا ہے کہ ترکی اپنی جنوبی سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے زمینی آپریشن شروع کرے گا۔

استنبول کے پرہجوم مقام پر دھماکے میں چھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ فوٹو روئٹرز

دوسری جانب امریکہ نے نیٹو کے رکن ترکیہ کو بتایا ہے کہ اسے اس بات پر شدید تحفظات ہیں کہ شام میں داعش کے عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ کا ہدف متاثر ہو گا۔
روس نے ترکیہ سے کہا کہ وہ مکمل پیمانے پر زمینی حملے سے باز رہے۔ اس نے ملک کی گیارہ سالہ جنگ میں شامی صدر بشار الاسد کی حمایت کی ہے جب کہ انقرہ نے ان باغیوں کی حمایت کی ہے جو وہاں حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے برسرپیکار ہیں۔
 

شیئر: