Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ارشد شریف قتل کیس، عدالت کا نئی جے آئی ٹی تشکیل دینے کا حکم

تھانہ رمنا میں درج کی گئی ایف آئی آر اور فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کی کاپی عدالت میں پیش کی گئی۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کی سپریم کورٹ نے سینیئر صحافی ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے لیے حکومت کی جانب سے قائم کی گئی خصوصی جے آئی ٹی مسترد کرتے ہوئے فوری طور پر نئی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا حکم دیا ہے۔ 
بدھ کو دوران سماعت چیف جسٹس نے حکم دیا کہ ’سپیشل جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی، پولیس، آئی بی، ایف آئی اے کے نمائندے شامل کیے جائیں۔ جے آئی ٹی میں ایسا افسر نہیں چاہتے جو آزاد نہ ہو، کسی کا دباو لینے والا ہو یا اُن افراد سے کسی بھی قسم کا کوئی تعلق رکھتا ہو جن کے اس مقدمے میں نام آ رہے ہیں۔‘  
سپریم کورٹ میں ارشد شریف قتل از خود نوٹس کیس کی دوسری سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی۔
بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس محمد علی مظہر شامل تھے۔  
سماعت کے آغاز پر صحافی حسن ایوب روسٹرم پر آئے اور بتایا کہ ’کمرہ عدالت تک ارشد شریف کی والدہ کو لانے کے لیے لفٹ نہیں تھی۔ پولیس نے ارشد شریف کے اہل خانہ سے درست رویہ نہیں اپنایا۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’وہیل چیئر کے لیے لفٹ تبدیل کر رہے ہیں، اس پر معذرت خواہ ہیں، پولیس والا معاملہ بھی دیکھ لیں گے۔‘
تھانہ رمنا میں درج کی گئی ایف آئی آر اور فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کی کاپی عدالت میں پیش کی گئی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے ارشد شریف قتل کیس کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ کے کچھ اقتباسات عدالت کو پڑھ کر سنائے اور بتایا کہ ’رپورٹ ارشد شریف کے اہلخانہ کو بھی فراہم کر دی گئی ہے۔ دفتر خارجہ ارشد شریف قتل کی تحقیقات کے لیے ہر حد تک معاونت کر رہا ہے۔‘
جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ مبینہ شوٹر کینیا کی پولیس کا اہلکار ہے یا نہیں؟ جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ کینیا پولیس کے تینوں اہلکاروں کے انٹرویوز رپورٹ میں شامل کیوں نہیں؟ 
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کینیا کے حکام سے تحقیقاتی ٹیم نے معلومات حاصل کیں۔ ’فائرنگ کرنے والے تین اہلکاروں سے ٹیم کی ملاقات کرائی گئی۔ چوتھے اہلکارکے زخمی ہونے کے باعث ملاقات نہیں کرائی گئی۔ کینیا میں متعلقہ وزیر اور سیکریٹری کابینہ سے ملاقات کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہائی کمیشن متعلقہ حکام سے رابطے میں ہے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ رات ایک بجے عدالت کو رپورٹ فراہم کی گئی ہے۔ ارشد شریف کا بہیمانہ قتل ہوا۔ اور قتل کا وقوعہ کینیا میں ہے، ان سے تعاون لیا جائے۔ قتل کیس کے کچھ گواہان پاکستان میں بھی ہیں۔  
سپریم کورٹ نے حکومت کی جانب سے ارشد شریف قتل کی تحقیقات کے لیے قائم سپیشل جے آئی ٹی مسترد کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو فوری طور پر نئی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا حکم دیا۔ 
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ’عدالت چاہتی ہے آزادانہ ٹیم قتل کی تحقیقات کرے۔ عدالت چاہتی ہے کہ تحقیقاتی ٹیم کے کسی فرد کا کسی بااثر افراد سے تعلق نہ ہو۔ رپورٹ میں ہے کہ دو بھائیوں میں سے ایک نے ارشد شریف کو ویزا بھیجا۔ ان بھائیوں میں سے ایک نے بہت عام انداز میں دوسرے کو کال پر بتایا کہ ارشد شریف کا قتل ہو گیا۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کا کام قابل ستائش ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ مقدمے میں کس بنیاد پر تین لوگوں کو نامزد کیا گیا ہے؟ 
جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیے کہ فائرنگ کرنے والے اہلکاروں کے نام تک رپورٹ میں نہیں لکھے گئے۔ مقدمے میں کس بنیاد پر تین لوگوں کو نامزد کیا گیا ہے؟ فائرنگ کرنے والے اہلکاروں کے خلاف مقدمہ کیوں درج نہیں کیا گیا؟، انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے، تنبیہ کر رہا ہوں کہ حکومت بھی سنجیدگی سے لے۔ 
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جائزہ لینا ہو گا کہ غیر ملکیوں کے خلاف مقدمہ درج ہو سکتا ہے یا نہیں۔ انکوائری رپورٹ ریکارڈ کا حصہ بنے گی۔ ’ابھی بہت سی تحقیقات ہونا باقی ہیں ایف آئی آر صرف ابتدائی اطلاعاتی رپورٹ ہے۔‘
ارشد شریف کی والدہ رفعت آراء عدالت کے روسٹرم پر آ کر بات کی۔  
انھوں نے بتایا کہ ارشد شریف کے ساتھ کیا کیا ہوا، اس سے متعلق درخواست تیار کی ہے۔ یہ بتاتے ہوئے وہ آبدیدہ ہو گئیں اور کہا کہ ’آپ سے درخواست ہے ہمیں انصاف دیں، ارشد شریف کو پاکستان چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اور وہاں بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑا گیا۔‘
مقتول صحافی کی والدہ نے بتایا کہ جس طرح پاکستان سے ارشد شریف کو نکالا گیا وہ اُن کی درخواست میں لکھا ہوا ہے۔  
چیف جسٹس نے کہا کہ ’افسوسناک واقعے پر آپ سے بہت معذرت خواہ ہیں، اٹارنی جنرل صاحب، آپ ارشد شریف کی والدہ کی درخواست دیکھیں۔ آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ تحقیقاتی ٹیم بغیر دباؤ کے قتل کی تحقیق کرے گی۔‘
ارشد شریف کی والدہ کے شکریہ ادا کرنے پر چیف جسٹس نے کہا کہ مسز علوی دو شہیدوں کی دکھی اور افسردہ ماں ہیں۔ شکریہ کی ضرورت نہیں، عدالت اپنا فرض ادا کررہی ہے۔ 
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ’ارشد شریف کی والدہ نے کئی لوگوں کے نام دیے ہیں۔ حکومت قانون کے مطابق تمام زاویوں سے تفتیش کرے۔ فوجداری مقدمہ ہے اس لیے عدالت نے کمیشن قائم نہیں کیا۔ کیس شروع ہی خرم اور وقار سے ہوتا ہے، عدالت کو کل نئی سپشل جے آئی ٹی سے متعلق آگاہ کریں۔‘
قبل ازیں حکومت نے ارشد شریف قتل کیس کی تحقیقات کے لیے سپیشل جے آئی ٹی کی تشکیل کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا تھا جس میں سی پی او ہیڈکوارٹر، ڈی پی او صدر، ایس ایچ او تھانہ رمنا شامل ہیں۔ 

شیئر: