Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تاج محل کو ’غلطی سے‘ پراپرٹی ٹیکس اور پانی کے بِل

تاج محل انڈیا میں مغل دور کا ایک نمایاں فنِ تعمیر ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
انڈیا کے شہر آگرہ میں مغلیہ دور کی مشہور یادگار تاج محل کو پراپرٹی کا ٹیکس اور پانی کا بِل موصول ہوا ہے۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق آرکیالوجی سروے آف انڈیا نے کہا ہے کہ ٹیکس اور پانی کے بِل غلطی سے بھیجے گئے۔
370 برس کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا کہ تاج محل کو پراپرٹی کا ٹیکس اور پانی کا بل بھیجا گیا ہے۔
آرکیالوجی سروے آف انڈیا کے مطابق پراپرٹی کا ٹیکس ایک کروڑ 40 لاکھ اور پانی کا بِل تقریباً ایک کروڑ روپے ہے۔
اترپردیش کی حکومت نے آگرہ کے قلعے کو بھی پانچ کروڑ روپے سے زیادہ کا ٹیکس نوٹس بھیجا ہے۔
آرکیالوجی سروے آف انڈیا کے افسر ڈاکٹر راج کمار پٹیل نے بتایا کہ ایک نوٹس آگرہ کے قلعے اور دو نوٹس تاج محل کو بھیجے گئے۔
ان کے مطابق یہ غلطی سے بھیجے گئے کیونکہ تاریخی عمارات پر ٹیکسز لاگو نہیں ہوتے۔
اترپردیش سمیت دیگر ریاستوں میں بھی تاریخی عمارتوں سے ٹیکس وصول نہیں کیے جاتے۔

تاج محل دریائے جمنا کے کنارے واقع ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ڈاکٹر راج کمار پٹیل کے مطابق ماضی میں پانی کے بل کے نوٹس بھی نہیں بھیجے گئے کیونکہ ہمارے پاس تاریخی عمارتوں میں پانی کے کنکشنز نہیں۔
انہوں نے کہا کہ کنٹونمنٹ بورڈ نے آگرہ قلعے کو نوٹس بھیجا تھا اور متعلقہ حکومت کو جواب دیا گیا کہ قانون میں تاریخی عمارتوں کو ٹیکس سے استثنیٰ دیا گیا ہے۔
تاج محل کو عالمی ثقافتی ورثے میں شمار کیا جاتا ہے اور انڈیا میں مغل دور کا ایک نمایاں فنِ تعمیر ہے۔ یہ آگرہ میں دریائے جمنا کے کنارے واقع ہے۔
تاج محل مغل بادشاہ شاہجہان نے اپنی اہلیہ ممتاز محل کی یاد میں 1631 سے 1648 کے درمیان تعمیر کرایا تھا۔ ہر سال لاکھوں سیاح اس تاریخی عمارت کو دیکھنے جاتے ہیں۔

آگرہ کا قلعہ مغل بادشاہ اکبر نے بنایا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ایک عہدیدار کے مطابق یہ نوٹس اس تاریخی عمارت کو بھیجے نہیں گئے بلکہ یہ ٹکٹ گھر اور تاج محل کے مشرقی گیٹ کے قریب رہائشی سیکٹر کو بھیجے گئے۔
آگرہ کا قلعہ یونیسکو کا ثقافتی ورثہ ہے اور یہ مغل بادشاہ اکبر نے بنایا تھا۔ یہ 1638 تک مغل بادشاہوں کی مرکزی رہائش گاہ تھی۔
ٹائمز آف انڈیا نے آگرہ میں میونسپلٹی کے ایک سینیئر عہدیدار کے حوالے سے کہا ہے کہ تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے کہ کیسے تاریخی عمارتوں کو نوٹسز بھیجے گئے۔

شیئر: