Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا میں تاج محل تنازع: ’پہلے تاریخ پڑھیں پھر منہ کھولیں‘

بی جے پی کی رکن کا دعویٰ ہے کہ تاج محل جے پور کے شاہی خاندان کی زمین پر بنایا گیا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
دنیا کے سات عجوبوں میں شمار کیا جانے والا تاج محل انڈیا میں ایک نئے تنازع کا شکار ہوگیا ہے اور تنازع کی وجہ بنی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایک رکن کی عدالت میں دائر کی جانے والی پٹیشن۔
رواں مہینے چار تاریخ کو بی جے پی کے میڈیا انچارج راجنیش سنگھ کی جانب سے الہ آباد ہائیکورٹ میں دائر کی جانے والی پٹیشن میں مؤقف اپنایا گیا کہ ’تاج محل میں تقریباً 20 کمروں کو تالے لگے ہوئے ہیں اور اس میں کسی کو داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں ہندو دیوتاؤں کی مورتیاں اور مقدس عبارات موجود ہیں۔‘
پٹیشن میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ تاج محل کے حوالے سے جھوٹی تاریخ پڑھائی گئی اس لیے سچ کو سامنے لانے کے لیے بند دروازوں کو کھولا جائے۔
علاوہ ازیں راجنیش سنگھ کی پٹیشن کے چند روز بعد 11 مئی کو بھارتیہ جنتا پارٹی کی رکن پارلیمان دیا کماری نے دعویٰ کیا تھا کہ جس زمین پر تاج محل تعمیر کیا گیا وہ جے پور کے شاہی خاندان کی ملکیت تھی۔
جے پور کے شاہی گھرانے سے تعلق رکھنے والی دیا کماری نے راجنیش سنگھ کی پٹیشن کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا ’ہمارے پاس کاغذات موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ زمین جے پور کے خاندان کی تھی اور شاہ جہان نے اس سے حاصل کی تھی اس لیے حقائق سامنے لائے جانے چاہییں۔‘
تاہم 12 مئی کو الہ آباد کی ہائیکورٹ نے بی جے پی کے رکن راجنیش سنگھ کی پٹیشن کو مسترد کر دیا اور کہا کہ ’عدالت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اس معاملے کو عدالت سے باہر رکھا جائے، حل کے لیے دیگر طریقے استعمال کرنے چاہییں اور اسے تاریخ دانوں پر چھوڑ دینا چاہیے۔‘
عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ ’ایسے مباحث ڈرائنگ رومز کے لیے ہوتے ہیں عدالتوں کے لیے نہیں۔
یہ معاملہ الہ آباد کورٹ نے تو نمٹا دیا لیکن سوشل میڈیا پر یہ معاملہ اب بھی زیر بحث ہے۔
ٹوئٹر پر اس وقت ’تاج محل کنٹراورسی (تنازع)‘ ٹاپ ٹرینڈز میں سے ایک ہے اور متعدد صارفین کی طرف سے یہ بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس طرح کے تنازعے کھڑے کرنے میں واٹس ایپ گروپوں کا بھی کردار ہے۔‘
انڈین چینل ’این ڈی ٹی وی‘ سے منسلک صحافی گارگی روات نے اس حوالے سے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’لوگوں کو واٹس ایپ پر سازشوں سے زیادہ تاریخ کو پڑھنے پر وقت لگانا چاہیے۔‘

نگار پروین نے ایک ٹویٹ میں لوگوں کو مشورہ دیا کہ ’پہلے تاریخ پڑھیں پھر اپنا منہ کھولیں۔‘

منور علی نامی صارف نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’مستند ذرائع سے معلومات حاصل کریں نہ کہ واٹس ایپ یونیورسٹی سے۔‘

جب سوشل میڈیا پر تمام لوگ تاج محل کی تاریخ کی بات کر رہے ہیں تو ضروری ہے کہ اس کی تاریخ پر ایک نظر ڈالی جائے۔
تاج محل کو مغل بادشاہ شاہ جہاں نے اپنی بیوی ممتاز کی محبت کی نشانی کے طور پر سنہ 1648 میں بنوایا تھا۔
شاہ جہاں کی بیوی ممتاز جن کا پیدائشی نام ارجمند بانو بیگم تھا وہ انڈیا کے علاقے آگرا میں سنہ 1593 میں پیدا ہوئیں تھیں ان کے والد شاہ جہاں کے والد کے بہنوئی تھے۔
’نیشنل جیوگرافک‘ کے مطابق ممتاز اتنی خوبصورت تھیں کہ شاہ جہاں، جنہیں اس وقت شہزادہ خرم کے نام سے جانا جاتا تھا، ان کی محبت میں گرفتار ہوگئے اور سنہ 1612 شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ شادی کے بعد ہی شاہ جہاں نے ان کا نام ارجمند بانو بیگم سے تبدیل کرکے ممتاز رکھا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ شادی کے بعد ممتاز ہمیشہ شاہ جہاں کے ساتھ ہی رہیں۔ ’نیشنل جیوگرافک‘ کے مطابق وہ اس وقت بھی اپنے شوہر کے ساتھ رہتی تھیں جب وہ مہمات پر جاتے تھے یا جب وہ حمل سے ہوتی تھیں۔

تاج محل کو مغل بادشاہ شاہ جہاں نے اپنی بیوی ممتاز کی محبت کی نشانی کے طور پر سنہ 1648 میں بنوایا تھا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ممتاز نہ صرف شاہجہاں کی بیوی تھیں بلکہ ان کی ہمراز اور قریبی مشیر بھی لیکن اس سب کے باوجود ان کی زندگی میں اپنے لیے طاقت کی چاہ کا کوئی شائبہ نظر نہیں آتا۔
واضح رہے شاہ جہاں اپنے والد جہانگیر کی موت کے بعد 1628 میں مغل سلطنت کے تخت پر براجمان ہوئے تھے۔
تاریخی کتب میں لکھا ہے کہ ممتاز 14 ویں بچے کی پیدائش کے دوران 1631 میں انتقال کرگئیں تھیں جس وقت وہ اپنے شوہر کے ساتھ ایک جنگی مہم پر تھیں۔
شاہ جہاں اپنی بیوی کی موت کے دکھ سے نکل نہ پائے اور پھر تقریباً سترہ سال انہوں نے ممتاز کی محبت کی سب سے بڑی نشانی تاج محل بنانے میں صرف کیے اور محبت کی اس نشانی کو لوگ تاج محل کے نام سے جانتے ہیں۔

شیئر: