Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کی ’سدابہار‘ ٹیپ بال کرکٹ لیگز

اگر آپ بھی دیگر پاکستانیوں کی طرح کرکٹ کے شیدائی ہیں تو پھر یقیناً آپ کی نظروں سے مقامی سطح پہ ہونے والی ٹیپ بال لیگز کی کوئی نہ کوئی ویڈیو ضرور گزری ہو گی۔
برق رفتار چھکوں کی وجہ سے مقبول یہ لیگز ملک بھر کے طول و عرض میں تقریباً سارا سال چلتی رہتی ہیں۔
پاکستان کے ہارڈ بال کرکٹ سٹرکچر کی طرح ٹیپ بال لیگز کے بھی باقاعدہ سیزن ہوتے ہیں۔ اگرچہ پاکستان کرکٹ بورڈ ٹیپ بال کو آفیشل مقام نہیں دیتا اور اس کے لیے کوئی نظام نہیں بنایا گیا تاہم ٹیپ بال کے نجی منتظم اپنے طور پر ملک بھر میں مختلف قومی ٹورنامنٹس منعقد کرواتے ہیں۔
ان میچز میں باقاعدگی سے کھیلنے والے درجنوں کھلاڑی پروفیشنل ٹیپ بال کرکٹر کا سٹیٹس رکھتے ہیں اور ان کی ایک میچ کی فیس لاکھوں روپوں تک جاتی ہے۔

ٹیپ بال کرکٹ ہے کیا؟

پروفیشنل ہارڈ بال کرکٹ میں 150 گرام سے زائد وزن کی گیند جب تیزی سے پھینکی جائے تو یہ خاصی خطرناک ہوتی ہے۔ بیٹسمین، وکٹ کیپر سمیت قریب کھڑے کھلاڑی حفاظتی سامان پہن کر کھیل میں شریک ہوتے ہیں۔

ٹیپ بال کی لیگز میں ایل بی ڈبلیو کا کوئی تصور نہیں ہے۔ (فوٹو: اردو نیوز)

گلی محلے کی سطح پر اس قدر انتظامات ممکن نہیں ہوتے اور نقصان کا بھی اندیشہ ہوتا ہے۔ اس لیے ٹینس بال پر الیکٹرک تاروں کے لیے استعمال ہونے والی ٹیپ چڑھا کر اسے بطور کرکٹ بال استعمال کیا جاتا ہے۔ 
کرکٹ کی معروف ویب سائٹ کرک انفو کے مطابق پاکستان میں ٹیپ بال کرکٹ کا آغاز 70 کی دہائی میں ہوا اور پھر یہ دیکھتے ہی دیکھتے مقبول ہو گئی۔

ٹیپ بال کرکٹ کے قوانین

یوں تو ٹیپ بال کرکٹ کے قوانین وہی ہیں جو ہارڈ بال کرکٹ کے ہیں البتہ ایک واضح فرق ایل بی ڈبلیو آؤٹ کے قانون کا ہے۔
گلی محلے میں کھیلی جانے والی کرکٹ میں ایل بی ڈبلیو آؤٹ نہیں ہوتا اور ٹیپ بال کی لیگز میں بھی اس کا کوئی تصور نہیں ہے۔
زیادہ تر میچ چار سے پانچ اوورز پر مشتمل ہوتے ہیں جن کی تعداد ٹورنامنٹ کے قوانین کے حساب سے کم یا زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔

ٹورنامنٹس کے انتظامات

ٹپ بال کے ٹورنامنٹ کا انعقاد کرنے کے لیے گراؤنڈ اور اس میں باؤنڈری لائن کی تیاری، سیمنٹ سے بنی پچ، وکٹیں، گیندیں، کرسیاں اور ساؤنڈ سسٹم وغیرہ ضروری انتظامات سمجھے جاتے ہیں۔ 
حال ہی میں اسلام آباد کے نواح میں بہارہ کہو کے مقام پر ایک ٹیپ بال سپر لیگ منعقد کی گئی۔

ٹینس بال پر الیکٹرک تاروں کے لیے استعمال ہونے والی ٹیپ چڑھا کر اسے بطور کرکٹ بال استعمال کیا جاتا ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

اس کے منتظم ڈاکٹر وقاص حیدر کے مطابق وہ آسٹریلیا میں ملازمت کرتے ہیں اور سائبر سکیورٹی کے شعبے سے منسلک ہیں، لیکن ٹیپ بال کرکٹ ٹورنامنٹ منعقد کروانے کے لیے خصوصی طور پر پاکستان آتے ہیں۔
ان جیسے ہی دیگر کئی منتظمین بھی اپنے اپنے علاقوں میں باقاعدگی سے ٹیپ بال لیگز منعقد کرواتے ہیں اور اس کے اخراجات دوستوں کی مدد سے خود پورے کرتے ہیں۔

سپانسر کیسے ملتے ہیں؟

ٹیپ بال ٹیمیں اپنے اخراجات کے لیے مقامی سطح پر سپانسر ڈھونڈتی ہیں۔ علاقے کے سیاسی، کاروباری و بااثر افراد اپنی ٹیموں کو ٹورنامنٹس میں شرکت کے لیے ٹرانسپورٹ اور دیگر سہولیات کی مد میں فنڈ ز فراہم کرتے ہیں۔
بہارہ کہو سپر لیگ میں شریک ہنگو کی ٹیم کے کپتان حضرت اللہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’پاکستان اور بیرون ملک مقیم دوست انہیں ٹیپ بال لیگز میں شرکت کے لیے مدد کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ جس علاقے میں لیگ ہو رہی ہو، وہاں ہنگو سے تعلق رکھنے والے افراد اگر قیام پذیر ہوں تو وہ بھی ان کی مہمان نوازی کرتے ہیں۔‘

ٹیپ بال کرکٹ کی انعامی رقم

ٹیپ بال لیگز کی انعامی رقم چند ہزار سے لے کر کئی لاکھ روپے تک ہوتی ہے۔
ڈاکٹر وقاص حیدر کے مطابق بہارہ کہو لیگ کا پہلا انعام نو لاکھ جب کہ دوسرا انعام تین لاکھ روپے ہے۔ ان کے بقول انعامی رقم وہ اپنی جیب سے ادا کر رہے ہیں۔

پاکستان میں ٹیپ بال کرکٹ کا آغاز 70 کی دہائی میں ہوا۔ (فائل فوٹو: کرک انفو)

باقاعدگی سے یہ ٹورنامنٹس کھیلنے والی ٹیموں کے لیے یہ انعامی رقم ایک باقاعدہ کمائی کی حیثیت رکھتی ہے اور وہ یہ آپس میں برابر تقسیم کر کے روزمرہ کے اخراجات چلاتے ہیں۔

اوپن کھلاڑی اور ان کی میچ فیس

ٹیپ بال کے مروجہ قوانین کے مطابق پاکستان کی زیادہ تر لیگز میں ہر ٹیم کو مقامی کھلاڑیوں کے علاوہ اپنے علاقے سے ہٹ کر دو غیرمقامی کھلاڑیوں کو شامل کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ ان غیر مقامی کھلاڑیوں کو اوپن کھلاڑی کہا جاتا ہے جو مختلف اُوقات میں مختلف ٹیموں کی نمائندگی کرتے ہیں۔
یہ اوپن کھلاڑی اپنی مقبولیت اور صلاحیتوں کے اعتبار سے میچ فیس وصول کرتے ہیں۔
ٹیپ بال کرکٹ منتظم زاہد عباسی کا کہنا تھا کہ ’بڑے کھلاڑی ایک دن کے حساب سے 20، 30 ہزار یا اس سے بھی زیادہ رقم لیتے ہیں۔‘
یہ بالکل کرکٹ کی ٹی20 لیگز کی طرح ہوتا ہے جہاں ہر ٹیم میں چار ایسے کھلاڑیوں کی اجازت ہوتی ہے جن کا تعلق کسی اور ملک سے ہو۔

حال ہی میں اسلام آباد کے نواح میں بہارہ کہو کے مقام پر ایک ٹیپ بال سپر لیگ منعقد کی گئی۔ (فوٹو: اردو نیوز)

لائیو ٹیلی کاسٹ

انٹرنیٹ کی فراہمی، فیس بک اور یوٹیوب کے فروغ کے بعد بڑی ٹیپ بال لیگز میں گراؤنڈ کے اندر باؤلنگ اور بیٹنگ اینڈ کے سامنے موبائل کو سٹینڈ پر لگا کر میچ کو لائیو ٹیلی کاسٹ اور ریکارڈ بھی کیا جاتا ہے۔
اس ریکارڈنگ کی بدولت ان مقامی سطح کے میچوں میں بھی ایمپائر کے فیصلوں پر ریویو لیا جاتا ہے اور ریکارڈنگ کو ریوائنڈ کر کے ری پلے دیکھا جاتا ہے۔

شیئر: