Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’پری میرج کونسلنگ‘ کا رجحان، ذہنی طور پر تیار ہونا اہم کیوں؟

پائلٹ پراجیکٹ پاکستان کی وفاقی حکومت، عالمی ادارہ صحت اور دیگر اداروں کا مشترکہ منصوبہ تھا (فوٹو: ڈبلیو ایچ او)
لاہور کے جناح ہسپتال میں میں داخل ہوں تو بائیں طرف ایک الگ چھوٹی سی عمارت ہے جس پر فیملی ہیلتھ کلینک کا بورڈ لگا ہوا ہے۔ یہ عمارت ویسے تو اتنی نمایاں نہیں ہے لیکن اس کے اندر بنے ہوئے ’نوجوان دوست مرکز صحت‘ نوجوانوں میں خاص طورپر خواتین کے لیے ایک امید کی کرن ہے۔
پنجاب کے محکمہ بہبود آبادی کی زیر نگرانی اس سینٹر پر شادی سے پہلے ’میرج کونسلنگ‘ کی سہولت دستیاب ہے۔ اس کلینک پر شادی کے معاملات پر تربیت یافتہ ماہرنفسیات کی ایک ٹیم موجود ہے جو شادی سے جڑے مسائل پر نوجوانوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ 
حنا علی (فرضی نام) ایک سٹوڈنٹ ہیں اور ان کے گھر والوں نے ان کی شادی طے کر دی ہے۔ وہ شادی کے لیے تیار نہیں ہیں اور خود کو آج کل دباؤ میں محسوس کر رہی ہیں۔ اس لیے انہوں نے اس کلینک کا رخ کیا۔ 

 

اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نےبتایا کہ ’میرا یہاں پر تیسرا سیشن ہے اور مجھے بہت سی ایسی باتیں سمجھ میں آئی ہیں جو پہلے میرے لیے پریشانی کا باعث بن رہی تھی۔ ایسا نہیں ہے کہ مجھے یہ شادی پسند نہیں ہے بلکہ میں ایک عجیب سا بوجھ محسوس کر رہی تھی۔ جس میں خوف کا عنصر بھی تھا۔ لیکن اب میں کافی پپُراعتماد ہوں۔ مجھے میری ایک دوست نے بتایا تھا جو یہاں علامہ اقبال میڈیکل کالج میں پڑھتی ہے۔ کہ اپنا مسئلہ لے کر یہاں جاؤں۔‘
جناح ہسپتال کے نوجوان دوست مرکز صحت میں اس وقت تین ماہر نفسیات موجود ہیں۔ کلینیکل سائیکالوجسٹ عنزہ جاوید گذشتہ پانچ سال سے نوجوانوں کو پری میریٹیل کونسلنگ کر رہی ہیں۔
انہوں نے بتایا ’آج کل لوگوں میں کافی دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ بہبود آبادی کے مراکز کو پہلے لوگ اولاد میں وقفے کے لیے سرگرم ادارے کے طور پر جانتے تھے۔ لیکن اب صورت حال بدل رہی ہے۔ میرے پاس آنے والوں کی اکثریت نوجوان بچیوں کی ہے۔ اور میں دن میں چار سے پانچ لوگوں کی کونسلنگ کرتی ہوں۔‘
پاکستان میں شادی سے پہلے نوجوانوں کی میرج کونسلنگ کی بات سال 2018 میں اُس وقت ہوئی جب ملک کی سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس کے ذریعے بڑھتی ہوئی آبادی روکنے کے لیے حکومت کو اقدامات کرنے کی ہدایت کی۔  
عدالتی حکم کے بعد مشترکہ مفادات کونسل نے تمام صوبوں کو ایڈائزری جاری کی جس میں شادی سے پہلے میرج کونسلنگ کو ضروری قرار دیا گیا۔

عدالتی حکم کے بعد مشترکہ مفادات کونسل نے تمام صوبوں کو ایڈائزری جاری کی جس میں شادی سے پہلے میرج کونسلنگ کو ضروری قرار دیا گیا (فوٹو: ڈبلیو ایچ او)

حکومت پاکستان، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور فورم فار سیف مدرہڈ نامی تنظیم نے حال ہی میں ’آغاز‘ کے نام سے ایک موبائل ایپلکیشن بھی متعارف کروائی ہے جو کہ شادی سے پہلے نوجوانوں کی کونسلنگ سے متعلق معلومات فراہم کرتی ہے۔ 
لاہور میں اس سال شاد باغ کے علاقے میں ایک شادی ہونا طے پائی۔ اس حوالے سے نکاح خواں کو اطلاع دے دی گئی۔ نکاح خواں (جن کی خواہش ہے کہ ان کا نام ظاہر نہ کیا جائے) نے جب لڑکی کی عمر دیکھی تو ان کو شائبہ ہوا کہ لڑکی ابھی شادی کی عمر کو نہیں پہنچی۔ 
انہوں نے اس حوالے سے لڑکی کے خاندان والوں کو اس بابت قائل کرنا شروع کیا۔ حفیظ (فرضی نام) نے بتایا کہ ’میں نے بہت ہی احسن طریقے سے اس معاملے کو لڑکی کے گھر والوں کے سامنے رکھا اور ان کو مضمرات سے آگاہ کیا۔ مجھے اس بات کی بے حد خوشی ہے کہ وہ شادی رک گئی۔‘
حفیظ ان 35 نکاح خوانوں میں سے ایک ہیں جن کو پری میریٹیل کونسلنگ کی تربیت دینے کے پائلٹ پراجیکٹ کا حصہ بنایا گیا۔
یہ پائلٹ پراجیکٹ پاکستان کی وفاقی حکومت، عالمی ادارہ صحت اور دیگر اداروں کا مشترکہ منصوبہ تھا جو 2020 میں شروع کیا گیا۔ اس پائلٹ پراجیکٹ کو لانچ کرنے سے پہلے اسلامی نظریاتی کونسل اور علما بورڈ سے لمبے عرصے تک مشاورت بھی کی گئی۔

پری میریج کونسلنگ ہے کیا؟ 

تولیدی صحت کے لیے سرگرم عمل اورآغاز موبائل ایپلکیشن نامی پراجیکٹ میں کنسلٹنٹ جویریہ اعجاز کہتی ہیں کہ پری میریج کونسلنگ نوجوانوں کو ذہنی طور پر شادی کے معاملات پر آگاہی دینا ہے۔
’یہ بتانا ضروری ہے کہ شادی دو انسانوں کے ازدواجی تعلقات سے کہیں آگے کا معاملہ ہے۔ پری میریج کونسلنگ میں سب سے پہلے تو شادی کا تصور واضع کیا جاتا ہے۔ کہ اس سے منسلک حقیقی ذمہ داریاں ہیں کیا ہے۔‘

کنسلٹنٹ جویریہ اعجاز کہتی ہیں کہ پری میرج کونسلنگ نوجوانوں کو ذہنی طور پر شادی کے معاملات پر آگاہی دینا ہے (فوٹو: ڈبلیو ایچ او)

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ’ہمارے ہاں سب سے زیادہ ارینج میرج کا رواج ہے۔ اس لیے شادی کرنے والوں کو ایک دوسرے کے ساتھ پہلی دفعہ ملنے کا موقع ملتا ہے تو انہیں بات چیت اور دیگر کمیونکیش کیسے کرنی چاہیے یہ بتایا جاتا ہے۔ اسی طرح شادی سے پہلے خون کے ٹیسٹ کرانے کا کہا جاتا ہے تاکہ وراثتی بیماریوں اور تھیلیسمیا سے بچاؤ یا آگاہی ہو سکے۔‘
ڈائریکٹر جنرل محکمہ بہبود آبادی ثمن رائے سمجھتی ہیں ’ہمارے معاشرے میں شادی کی کئی جزئیات پر بات کرنا برا سمجھا جاتا ہے۔ والدین کی پہلی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو آنے والی عملی زندگی کے پیچیدہ پہلوؤں پر بات کریں۔ ایک ماں کو اپنی بیٹی سے کھل کر بات کرنی چاہیے۔ پری میرج کونسلنگ میں نکاح نامہ کی اہمیت کو سمجھایا جاتا ہے کہ یہ ایک کانٹریکٹ ڈاکیومنٹ ہے۔ اس کو لڑکے اور لڑکی کو دھیان سے پڑھنا چاہیے۔ اور انہیں پتا ہونا چاہیے کہ اس میں کیا کیا شرائط وہ رکھوا سکتے ہیں۔ یہ سب سے اہم موضوع ہے جس کا شادی کرنے والوں کو بالکل بھی پتا نہیں ہوتا۔‘
ثمن رائے نے بتایا کہ پری میریج کاؤنسلنگ کے لیے اب پنجاب کے تمام اضلاع میں ماہر نفسیات کو بھرتی کیا جارہا ہے۔ اور جلد یہ سہولت لوگوں کو ہر ضلع میں دستیاب ہوگی۔ 

پری میریج کونسلنگ پر کام کیسے ہو رہا ہے؟ 

ملک کے چاروں صوبوں میں موجود بہبود آبادی کے محکمے اب شادی سے پہلے کونسلنگ پر اس طرح کام کر رہے ہیں کہ بڑے ہسپتالوں میں فیملی کلینکس کے اندر ہی نوجوان دوست مراکز صحت بنادیے گئے ہیں جہاں یہ سہولت دستیاب ہے۔
جبکہ وفاقی حکومت عالمی ادارہ صحت اور ڈیویلپمنٹ سیکٹر کے ساتھ مل کر کئی طرح کے طریقہ کار پر کام کررہی ہے۔ آغاز نامی موبائل اپلکیشن ان میں سے ایک ہے۔ 
پری میرج کونسلنگ کے لیے نوجوانوں تک آگاہی کیسے پہنچائی جا رہی ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ماہر نفسیات عنزہ جاوید کا کہنا ہے کہ ’ہم کالجز میں سیشن رکھتے ہیں۔ جس کے بعد طلبا خود ہم تک پہنچ جاتے ہیں اپنے مسائل بتاتے ہیں۔ اسی طرح ہسپتالوں کے وارڈز میں لوگوں کو سیشن دئے جاتے ہیں خاص طور پر گائنی وارڈز میں تو اس طرح لوگ خود ہی رابطہ کرنا شروع ہو جاتے ہیں کہیں ہمیں مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ جیسے ایک سرکاری کالج کی پرنسپل نے اس بات کا برا منایا تھا کہ وہاں یہ آگاہی مہم کیوں رکھی گئی۔‘
ڈی جی ثمن رائے کا کہنا ہے کہ ’پری میریٹیل کونسلنگ محکمہ بہبود آبادی میں ارتقائی طور پر وجود میں آیا کیونکہ پوری دنیا میں یہ تصور پہلے سے موجود ہے۔ شادی کے بعد آبادی کی بہبود جتنی ضروری ہے اس سے زیادہ ضروری ہے کہ شادی سے پہلے لوگوں کو آگاہی ہو۔‘
قومی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال 22 لاکھ بچے پیدائش سے پہلے ہی ضائع ہو جاتے ہیں۔ اس کی بیشتر وجوہات میں سے تولیدی صحت کے بارے میں کم آگاہی ہونا بھی ہے۔ 
جویریہ اعجاز کا کہنا ہے کہ ’پچھلے دو سالوں میں بین الاقوامی امداد کے سبب اس ایریا میں کافی کام ہوا ہے۔ پائلٹ پراجیکیٹس شروع ہوئے جن میں ہر مکتبہ فکر کو شامل کیا گیا تاکہ کسی کو کوئی ابہام نہ رہے۔‘
’لاہور میں جن نکاح خوانوں کو تربیت دی گئی انہوں نے 450 سے زائد جوڑوں کو شادی سے قبل اہم ترین موضوعات پر آگاہی دی۔ اب موبائل اپلیکیشن بھی لانچ ہو گئی ہے۔ جس سے نوجوانوں تک رسائی میں مدد ملے گی۔‘
انہوں نے ایک واقعہ شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ ’جھنگ کے علاقے میں کمیونٹی ورکرز نے ایک ایسے بچے کی نشاندہی کی جو بہت اچھی نعت پڑھتا تھا۔ اس کی عمر محض گیارہ بارہ سال تھی۔ اس کے بعد اچانک وہ کمیونٹی سرگرمیوں میں آنا بند ہو گیا۔‘
’بچے کی کمی کو محسوس کر کے جب اس کے گھر رابطہ کیا گیا تو بچے نے بتایا کہ اس سے کوئی گناہ سرزد ہوگیا ہے اس کی خوبصورت آواز خدا نے واپس لے لی ہے۔ لیکن جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے کی وجہ سے اس کی حیاتیاتی طور پر آواز بدلی تھی۔ پاکستان میں کمیونٹی ورکرز کا ایک بڑا نیٹ ورک موجود ہے اور یہ سب طریقے پری میرج کونسلنگ کے لیے اہم ہیں جو کہ جوانی کی دہلیز پر ہی شروع ہو جانی چاہیے۔‘

شیئر: