Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پی ڈی ایم کا اجلاس، کیا ایم کیو ایم کے تحفظات دور کیے جا سکیں گے؟

خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ’ہمارا مطالبہ ہے کہ سندھ کے شہری علاقوں میں حلقہ بندیوں کو درست کیا جائے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں قائم اتحادی حکومت کی اہم جماعت متحدہ قومی موومنٹ کی شکایات دور کرنے کے لیے پی ڈی ایم کا اجلاس کراچی میں ہونے جا رہا ہے جس میں اتحادی جماعتوں کے رہنما ایم کیو ایم کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کریں گے۔
دوسری جانب پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کا کہنا ہے کہ ’ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی بلدیاتی انتخابات سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے یہ ہتھکنڈے اختیار کر رہے ہیں۔ اس سازش کو بے نقاب کریں گے۔‘
ایم کیو ایم کے ترجمان احسن غوری نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ایم کیو ایم پاکستان نے وفاقی حکومت کو اپنے تحفظات سے آگاہ کر دیا ہے۔ رابطہ کمیٹی نے طویل مشاورت کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ اتحادی حکومت کے قیام پر طے پانے والے معاہدے پر عملدرآمد نہیں کیا گیا تو ایم کیو ایم کارکنان کی مشاورت سے فیصلہ کرے گی کہ اتحاد سے علحیدگی اختیار کرنی ہے یا اتحاد کا حصہ رہتے ہوئے احتجاج کرنا ہے۔‘
یاد رہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کے اس پیغام کے پی ڈی ایم کے رہنماؤں نے ایم کیو ایم سے رابطہ کیا ہے اور پی ڈی ایم نے کراچی میں ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس طلب کر لیا ہے۔ اجلاس میں اتحادی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت شرکت کرے گی۔
احسن غوری کا کہنا تھا کہ اس ضمن نے سربراہ ایم کیو ایم پاکستان ڈاکٹر خالد مقبول نے رابطہ کمیٹی میں مشاورت کے بعد یہ فیصلہ کیا تھا کہ اب متحدہ قومی موومنٹ وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف سمیت دیگر رہنماؤں سے رابطہ نہیں کرے گی۔ وفاقی حکومت اگر ایم کیو ایم کے تحفظات دور کرنے میں سنجیدہ ہے تو وفاقی حکومت خود رابطہ کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کے فیصلے کے بعد پی ڈی ایم رہنماؤں نے ایم کیو ایم سے رابطہ کیا اور حکومت کے قیام کے وقت معاہدے کا حصہ بننے والے رہنما آج کراچی میں جمع ہو رہے ہیں۔ اس اجلاس میں ایم کیو ایم کو شمولیت کی دعوت دی گئی ہے۔ ایم کیو ایم کا وفد اجلاس میں شریک ہوگا اور اپنے تحفظات سے اتحادی حکومت کے اراکین کو آگاہ کرے گا۔
ایم کیو ایم کے کیا تحفظات ہیں؟
ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کراچی میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارا پہلے دن سے مطالبہ ہے کہ سندھ کے شہری علاقوں میں حلقہ بندیوں کو درست کیا جائے اور حکومت کے قیام میں طے پانے والے معاہدے پر عمل درآمد کیا جائے۔‘
’سندھ میں کی جانے والی حلقہ بندیاں آئین و قانون کے خلاف ہیں، الیکشن کمیشن حلقہ بندیوں کی ذمہ داری سندھ حکومت کو سونپنا چاہتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کہیں حلقہ 90 ہزار افراد پر مشتمل ہیں تو کہیں اسی صوبے میں 20 سے 25 ہزار افراد پر حلقہ تشکیل دیا گیا ہے۔ ان حلقہ بندیوں پر صاف و شفاف الیکشن نہیں ہوسکتے۔‘
سندھ کی دیگر جماعتوں کا ماننا ہے کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم بلدیاتی انتخابات کرانے میں سنجیدہ نہیں ہے۔

خرم شیر زمان کے مطابق ’پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم چاہتی ہیں کہ سندھ میں دوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات نہ ہوں۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کا موقف ہے کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم ایک بار پھر سے بلدیاتی انتخابات سے راہ فرار اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ ایم کیو ایم وفاقی حکومت کو بلیک میل کر رہی ہے تاکہ بلدیاتی الیکشن رواں ماہ 15 جنوری کو نہ ہوسکیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما خرم شیر زمان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم چاہتی ہیں کہ سندھ میں دوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات نہ ہوں۔ سندھ کی حکمران جماعت اور دھڑے بندی کا شکار ایم کیو ایم کو معلوم ہے کہ انہیں بلدیاتی انتخابات میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سندھ کی بربادی میں انہیں دو جماعتوں کا کردار ہے۔‘
خرم شیر زمان نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کا مطالبہ ہے کہ فوج کی نگرانی میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ مکمل کیا جائے۔
امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمان کا کہنا ہے کہ ’سندھ میں دوسرے مرحلے کے انتخابات کو ملتوی کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ زرداری ٹیسوری ڈاکٹرائن کے نتیجے میں الیکشن ملتوی کرنے کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی شازشوں کو بے نقاب کریں گے۔‘

شیئر: