Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قربانی کا بکرا

امانت اللہ کو قربانی کا بکرا بنانا انتہائی افسوسناک ہے ، اس سے عام آدمی پارٹی مزیدکمزور ہوگی اور اس پر مسلمانوں کا اعتماد مجروح ہوگا
- - - - -- - - -- -
معصوم مرادآبادی
 - - - - - - -  - -- - -
فارسی کی مشہور کہاوت ہے کہ نزلہ ہمیشہ جسم کے کمزور حصے پر ہی گرتا ہے۔ عام آدمی پارٹی کے ممبراسمبلی امانت اللہ خاں اور پارٹی کے بانی لیڈر کمار وشواس کے درمیان جو تنازع پیدا ہوا تھا اس کا نتیجہ پارٹی سے امانت اللہ کی معطلی اور بنیادی رکنیت سے اخراج کی صورت میں برآمد ہوا ہے۔ یہی ہونا بھی تھا کیونکہ اس معاملے میں امانت اللہ خاں تنہا پڑگئے تھے اور کماروشواس کی پشت پر اروند کجریوال سمیت پارٹی کے تمام لیڈران کھڑے ہوگئے تھے۔ حالانکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امانت اللہ خاں نے کماروشواس پر آر ایس ایس اور بی جے پی ایجنٹ ہونے کا الزام ازخود عائد نہیں کیا تھا بلکہ پارٹی کے ہی ایک سینئر لیڈر نے امانت اللہ کے کندھے پر بندوق رکھ کر کماروشواس کو نشانہ بنایاتھا۔ ورنہ امانت اللہ کی پارٹی میں اتنی وقعت نہیں تھی کہ وہ کسی سینئر لیڈر کے خلاف ایسا بیان دے سکیں۔ حالیہ اسمبلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی کو پنجاب اور گوا میں توقع کے برخلاف جو ناکامی ہاتھ لگی ہے اس کے بعد کماروشواس مسلسل پارٹی مخالف بیان بازی کررہے تھے۔ انہوں نے ان انتخابات میں کوئی سرگرم کردار بھی ادا نہیں کیا تھا۔ دہلی میونسپل کارپوریشن کے حالیہ انتخابات میں عام آدمی پارٹی کی شکست کے بعد کماروشواس کے حملے مزید تیز ہوگئے تھے۔ کارپوریشن کے انتخابی نتائج کے بعدجب وزیراعلیٰ اروند کجریوال نے یہ کہاتھا کہ ان کی پارٹی کو ای وی ایم مشینوں نے ہرایا ہے تو کماروشواس نے اس بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہاتھا کہ عام آدمی پارٹی کو دراصل عوام نے ہرایا ہے۔ ظاہر ہے یہ ایک ایسا بیان تھا جو اپنی ہی پارٹی کے سربراہ کے بیان کی تردید کرتا ہوا نظر آرہا تھا لیکن پارٹی نے کماروشواس کے خلاف نہ تو کوئی کارروائی کی اور نہ ہی ان کے بیان کی گرفت کی گئی جبکہ امانت اللہ خاں کو ان کے بیان کے دوروز بعد ہی پارٹی کی ابتدائی رکنیت سے معطل کردیاگیا اور کماروشواس کو انعام کے طورپر راجستھان کی صوبائی اکائی کا سربراہ بھی نامزد کردیاگیا۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو کماروشواس اور امانت اللہ دونوں نے ہی پارٹی کا ڈسپلن توڑا تھا اور ان دونوں کے خلاف یکساں تادیبی کارروائی عمل میں آنی چاہئے تھی لیکن ایک کو سزا دے کر پارٹی سے نکال دیا گیا جبکہ دوسرے کو انعام سے نوازا گیا۔ سیاسی پارٹیوں میں مسلم نمائندوں کے ساتھ یہ سلوک نیا نہیں ہے۔
عام طورپر سبھی سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کو استعمال کرکے دودھ کی مکھی کی طرح نکال کر پھینک دیتی ہیں۔عام آدمی پارٹی نے بھی اس معاملے میں دیگر عیار ومکار سیاسی پارٹیوں کے طرز عمل کی پیروی کی ہے۔ جہاں تک کماروشواس کا تعلق ہے تو یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ وہ آر ایس ایس سے دلی ہمدردی رکھتے ہیں اور ان کا جھکاؤ بی جے پی کی طرف ہے۔وہ وزیراعظم نریندرمودی کے پرانے بھکت ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے بیانات میں کبھی سنگھ پریوار کو نشانہ نہیں بناتے۔ اس کے برعکس پارٹی کے کنوینر اروندکجریوال کھل کر بولتے ہیں اور وہ آر ایس ایس اور بی جے پی کی فرقہ واریت کا پردہ چاک کرتے رہتے ہیں۔ بطور وزیراعلیٰ اروند کجریوال کو بی جے پی کی طرف سے تلخ تجربات سے گزرنا پڑا ہے ۔ جب سے دہلی میں عام آدمی پارٹی نے بے نظیر کامیابی حاصل کرکے اپنی حکومت بنائی ہے اور بی جے پی کو شرمناک شکست سے دوچار کیاہے تب سے ہی مرکزی حکومت نے ان کی ناک میں دم کررکھاہے۔ مرکز اور صوبائی حکومت کے اختیارات کے سوال پر رسہ کشی پہلے ہی دن سے جاری ہے۔ اگر یہ کہاجائے کہ مودی سرکار نے لیفٹیننٹ گورنر کے ذریعے کجریوال کا ناطقہ بند کررکھا ہے تو بیجا نہ ہوگا۔ دہلی سرکار کی زیادہ تر توانائی ان ہی تنازعات کو حل کرنے پر صرف ہورہی ہے جو اختیارات کی تقسیم کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔ اسی رسہ کشی کا نتیجہ ہے کہ عام آدمی پارٹی کی کارکردگی بری طرح متاثر ہوئی ہے اور اسے گزشتہ فروری میں پنجاب اور گوا میں اور اس کے بعد گزشتہ مارچ میں دہلی میونسپل کارپوریشن کے انتخابات میں شکست سے دوچار ہونا پڑاہے۔ ایک ایسی پارٹی جو اپنی ایماندارانہ شبیہ اور صاف ستھری امیج کی بنیاد پر ملک میں بدعنوان سیاسی نظام کا متبادل بنتی ہوئی نظر آرہی تھی اور جس سے عوام کو بہت امیدیں وابستہ تھیں، وہ آہستہ آہستہ اپنے انجام کی طرف بڑھ رہی ہے۔
عام آدمی پارٹی کے سیاسی زوال میں جہاں ایک جانب اس کے مخالفین کا بڑا ہاتھ ہے تو وہیں دوسری جانب اس میں خود عام آدمی پارٹی کی بڑھی ہوئی سیاسی آرزوؤں کابھی دخل کچھ کم نہیں ۔ 2015میں مودی لہر کے دوران عام آدمی پارٹی نے دہلی اسمبلی کی 70میں سے 67نشستوں پر قبضہ کرکے پوری دنیا کو حیرت زدہ کردیا تھا۔ ان انتخابات میں دہلی کی سیاست میں گہری جڑیں رکھنے والی بی جے پی اور کانگریس کا تقریباً صفایا ہوگیا تھا۔ عام آدمی پارٹی نے جن بنیادوں پر اپنی سیاسی عمارت تعمیر کی تھی وہ لوگوں کو بہت پسند آئی تھی کیونکہ ملک کے عوام بدعنوانی ، لوٹ کھسوٹ اور اقرباء پروری سے بے حد پریشان ہیں اور سیاسی نظام میں تبدیلی چاہتے ہیں۔ کرپشن کا مکمل خاتمہ کرنا اور عوامی فلاح وبہبود عام آدمی پارٹی کا اصل ایجنڈا تھا۔ وی آئی پی کلچر کو ختم کرکے صحیح معنوں میں جمہوری راج قائم کرنا اس پارٹی کا نعرہ تھا۔ ابتدا میں اس کے اثرات بھی نظر آئے۔ دہلی حکومت نے کئی ایسے کام کئے جو اس سے پہلے کسی حکومت نے نہیں کئے تھے۔
مثال کے طورپر دہلی میں بجلی کے نرخ انتہائی کم کردیئے گئے اور دہلی والوں کو مفت پانی ملنے لگا۔ اس سے واقعی عوامی مقبولیت میں عام آدمی پارٹی سب سے آگے نکل گئی۔ لیکن اس دوران پارٹی نے بڑھتی ہوئی مقبولیت کے سراب میں مبتلا ہوکراپنی قومی سطح پر توسیع شروع کردی۔ یہی وہ فیصلہ تھا جس نے عام آدمی پارٹی کو دہلی والوں سے دور کردیا۔ حالیہ کارپوریشن انتخابات میں بھارتیہ جنتاپارٹی گزشتہ 10سال کی لوٹ کھسوٹ اور بدعنوانی کے باوجود دوبارہ اقتدار میں آگئی۔ جبکہ عام آدمی پارٹی بجلی پانی کی سہولت کے علاوہ صحت اور تعلیم کے شعبوں میں نمایاں کارکردگی کے باوجود شکست سے دوچار ہوگئی۔ جس پارٹی نے 2015کے اسمبلی انتخابات میں سب کا چراغ گل کردیا تھا وہ کارپوریشن انتخابات میں بدعنوان بی جے پی سے شکست کھاگئی۔ عام آدمی پارٹی میں حالیہ سرپھٹول کارپوریشن انتخابات میں ناکامی کا نتیجہ ہے۔ کماروشواس اور امانت اللہ خاں کا حالیہ تنازع بھی اسی کی دین ہے لیکن اس تنازع میں پارٹی کے ایک سینئر لیڈر کو بچاکر جس طرح امانت اللہ کو قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے وہ انتہائی افسوسناک ہے اور اس سے عام آدمی پارٹی مزیدکمزور ہوگی اور اس پر مسلمانوں کا اعتماد مجروح ہوگا۔

شیئر: