Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’بی بی ایل کھیل کر پریشان نہیں کروں گا،‘ افغان کرکٹرز آسٹریلیا کے فیصلے پر برہم

افغانستان اور آسٹریلیا کے درمیان کرکٹ سیریز متحدہ عرب امارات میں کھیلی جانی تھی۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)
طالبان کے زیرانتظام افغانستان میں خواتین کی تعلیم اور ملازمت کرنے پر پابندی کے سبب آسٹریلیا نے افغانستان کرکٹ ٹیم کے ساتھ  متحدہ عرب امارات میں تین روزہ ون ڈے سیریز کھیلنے سے انکار کیا تھا جس کے بعد افغان کرکٹرز آسٹریلین کرکٹ بورڈ پر تنقید کر رہے ہیں۔
جمعرات کو کرکٹ آسٹریلیا نے ایک بیان میں کہا تھا کہ افغانستان کے ساتھ سیریز نہ کھیلنے کا فیصلہ طالبان کے خواتین کی تعلیم اور ملازمت کرنے پر پابندی کے تناظر میں کیا گیا ہے۔
آسٹریلین کرکٹ بورڈ کا کہنا تھا کہ’کرکٹ آسٹریلیا دنیا بھر خصوصاً افغانستان میں خواتین اور مردوں کے لیے کھیلوں کو فروغ دینے میں پُرعزم ہے اور ہم خواتین اور لڑکیوں کے لیے صورتحال میں بہتری کے لیے افغان کرکٹ بورڈ سے رابطے جاری رکھیں گے۔
اس فیصلے پر متعدد افغان کرکٹرز کی جانب سے ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا ہے۔ افغانستان کے مشہور ترین کرکٹر راشد خان نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’سیاست کو کرکٹ سے دور رکھیں۔‘
اپنے تفصیلی بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ’میں یہ سن کر بہت مایوس ہوا ہوں کہ آسٹریلیا نے ہمارے ساتھ مارچ میں سیریز کھیلنے سے انکار کر دیا ہے۔‘
راشد خان آسٹریلین بگ بیش لیگ (بی بی ایل) میں ایڈیلیڈ سٹرائیکرز کی نمائندگی کرتے ہیں لیکن آسٹریلین کرکٹ بورڈ کے سیریز نے کھیلنے کے فیصلے کے بعد افغان کرکٹر کا کہنا ہے کہ وہ آسٹریلین لیگ میں کھیلنے یا نہ کھیلنے کے حوالے غور کریں گے۔
’اگر افغانستان کے ساتھ کھیلنا آسٹریلیا کے لیے پریشان کن ہے تو پھر میں بی بی ایل میں بھی اپنی موجودگی سے انہیں پریشان نہیں کروں گا۔‘
افغانستان کی ٹی20 ٹیم کے کپتان محمد نبی نے بھی آسٹریلین کرکٹ بورڈ کے اس فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’کھیل اور سیاست کو علیحدہ رکھیں۔‘
افغانستان کے جارحانہ بیٹر رحمان اللہ گُرباز نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ‘ہمیں کبھی سیاست اور کھیل کو ساتھ جوڑنا نہیں چاہیے۔ ہم اس مشکل صورتحال میں دنیا سے امید کرتے ہیں کہ وہ افغانستان کی حمایت کریں نہ کہ ہماری اکلوتی خوشی ہم سے چھینیں۔‘
نجیب زدران نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’کھیل کو سیاست کی وجہ سے نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔‘
خیال رہے افغانستان میں طالبان کی حکومت نے گزشتہ برس دسمبر میں خواتین کے جامعات میں داخلے اور تعلیم حاصل کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔
اس کے علاوہ طالبان کی حکومت خواتین پر غیر سرکاری اداروں میں کام کرنے پر بھی پابندی عائد کر چکی ہے۔ افغانستان کی عبوری حکومت کا مؤقف ہے کہ خواتین جامعات اور دفاتر میں شرعی اصولوں کے مطابق لباس کا خیال نہیں رکھ رہیں اور نہ ہی حجاب استعمال کر رہی ہیں۔

شیئر: