Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیاسی جماعتیں چھوڑنے والے اور ناراض سیاستدان الیکشن میں کیا کرنے والے ہیں؟

مبصرین کے مطابق پاکستان میں سیاسی جوڑ توڑ کے لیے اگلا ایک ماہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ (فائل فوٹو: علیم خان فیس بک)
پاکستان میں رواں سال عام انتخابات کا سال ہے مگر یہ کب ہوں گے اس کا زیادہ تر انحصار ملک میں جاری سیاسی بحران کی بدلتی کروٹوں پر ہے۔
موجودہ قومی اسمبلی کی مدت اگست کے وسط تک ہے لیکن پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد ماحول میں تبدیلی آئی ہے اور سیاسی جماعتوں نے صف بندی شروع کر دی ہے۔
ایسے میں کچھ سیاستدان ایسے بھی ہیں جن کا ماضی قریب میں ملکی سیاست پر بہت گہرا اثر رہا ہے تاہم اب وہ بظاہر کسی سیاسی جماعت میں نہیں۔ 
جہانگیر ترین، علیم خان، چوہدری سرور، چوہدری نثار کے علاوہ بھی کئی نام ہیں جن کی واضح سیاسی چال ابھی تک سامنے نہیں آئی۔
مسلم لیگ ن کے کئی رہنماؤں کے بارے میں بھی یہ خبریں سوشل میڈیا پرآ رہی ہیں کہ شاید وہ اپنی پارٹی بنانے لگے ہیں، ان میں مفتاح اسماعیل اور شاہد خاقان عباسی سر فہرست ہیں تاہم شاہد خاقان عباسی نے ان خبروں کی سختی سے تردید کی ہے۔ 
سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی کے مطابق بظاہر فوری طور پر کوئی نئی سیاسی جماعت بننے کا امکان نظر نہیں آتا تاہم یہ سیاستدان اپنے پریشر گروپ ضرور قائم رکھیں گے۔ 
’مجھے تو کوئی نئی سیاسی پارٹی نظر نہیں آ رہی۔ مجھے جو نظر آ رہا ہے وہ یہ ہے کہ جہانگیر ترین ہوں یا علیم خان یا پھر چوہدری سرور یہ وہ لوگ ہیں جن کے آخری راستے تحریک انصاف سے الگ ہوئے۔ اور یہ وہ نام ہیں جنہوں نے 2018 کے عام انتخابات میں بڑا کلیدی کردار ادا کیا۔ میرا نہیں خیال یہ لوگ نئی پارٹی بنائیں گے۔ میرا خیال ہے یہ اپنی پوزیشن بحال رکھیں گے۔ یعنی اپنی گروہ بندی کی سیاست۔‘ 
سلمان غنی کا تجزیہ ہے کہ یہ تمام سیاستدان اپنے قریبی اراکین اسمبلی کے ذریعے مستقبل کی سیاست میں بھی اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھیں گے۔ 
’ان کے پاس اچھے خاصے ایم  پی ایز پہلے بھی تھے اور آئندہ بھی ہوں گے۔ ترین کا اثر جنوبی پنجاب میں تو علیم خان لاہور سمیت وسطی پنجاب میں اثر رکھتے ہیں۔ دونوں کے رابطے پیپلزپارٹی سے ہیں اور ن لیگ سے بھی۔ وہ تو اپنے مفاد کو رکھتے ہوئے پاور گروپس کے طور پر اپنے آپ کو آگے لائیں گے۔‘ 
مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان میں اگلا ایک ماہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ جوڑ توڑ اور آئندہ کی سیاست کا انحصار اسی مہینے پر ہے۔ 
چوہدری سرور جو سابق گورنر پنجاب بھی رہ چکے ہیں انہوں نے ن لیگ اور تحریک انصاف دونوں کے ساتھ وقت گزارا ہے کیا وہ اب اپنی الگ سے سیاسی جماعت بنا رہے ہیں؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے چوہدری سرور نے کہا کہ ’میرا نہیں خیال کہ ابھی اس کی کوئی ضرورت ہے۔ لیکن میں سیاست میں فعال کردار ادا کرتا رہوں گا پہلے بھی کیا ہے۔‘

جہانگیر ترین کا جنوبی پنجاب کی سیاست میں اثر و رسوخ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ (فائل فوٹو: عون چوہدری فیس بک)

ان سے جب پوچھا گیا کہ انہوں نے حال ہی میں ق لیگ اور پیپلرپارٹی کی قیادت سے ملاقات کی اس کا کیا مطلب لیا جائے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ’میری سیاستدانوں سے ملاقاتیں پہلے بھی تھی اور اب بھی ہیں اس کا ابھی کوئی مطلب نہ لیا جائے۔ میں جو بھی فیصلہ کروں گا ملک کے مفاد میں ہوگا۔‘ 
خیال رہے کہ مسلم لیگ ن میں مفتاح اسماعیل سے استعفٰی لیے جانے کے بعد شاہد خاقان عباسی ان کی حمایت میں بولتے دکھائی دیتے ہیں۔
پیپلز پارٹی چھوڑنے والے سابق سینیٹر مصطفٰی نواز کھوکھر نے حال ہی میں شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل کے ساتھ مل کر ملک بھر میں سیمینار کر کے عوامی مسائل اجاگر کرنے کا آغاز کیا ہے۔ تو کیا اس بات کے امکانات ہیں کہ ن لیگ، پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی کے رہنما کوئی اکھٹی پارٹی بنانے کا سوچ رہے ہیں؟
سیاسی تجزیہ کار مجیب الرحمن شامی اس بات کو فوری قبول کرتے دکھائی نہیں دیتے۔ انہوں نے بتایا کہ ’ہونے کو تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن ابھی کوئی ایسے آثار نہیں۔ الیکشن سے قبل ایسی پارٹیاں ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ بناتی رہی ہے۔ لیکن ابھی جو دکھائی دے رہا ہے اس میں اسٹیبلشمنٹ اس کھیل سے باہر ہے۔ جن رہنماؤں کے نام آپ لے رہے ہیں سب قد آور ہیں اور سب کی الگ الگ کہانی ہے۔ اس لیے بھی یہ قیاس نہیں کیا جا سکتا۔‘ 

شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل نے ملک بھر میں سیمینارز کے ذریعے عوامی مسائل اجاگر کرنے کا آغاز کیا ہے۔ (فوٹو: اے پی پی)

 پاکستان میں جمہوری عمل پر نظر رکھنے والے ادارے پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ ’میرا خیال ہے کہ نئی سیاسی جماعتوں کی ضرورت اور افادیت ہمیشہ رہتی ہے۔ پاکستان میں ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ نے بڑے ناموں سے پارٹیاں کھڑی کی ہیں، قدرتی طریقے سے ایسے پارٹی بننے کی روایت بڑی کم ہے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ موجود سیاسی رسہ کشی کم ہو اور گورننس کے ماڈل پر بات کرنے والے سیاست دان سامنے آئیں جن کے پاس متبادل ماڈل بھی موجود ہو۔ اس سے پاکستان کی سیاست میں یکسر تبدیلی بھی آ سکتی ہے۔‘ 
گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان میں موروثی سیاست کا رجحان ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق یہ رجحان بھی اسی لیے ہے کہ قابل سیاستدان مجموعی سیاسی صورتحال جس میں جمہوریت کی قدریں ہی ہمیشہ کمزور رہیں اپنی پارٹی چھوڑ کر نئی بنانے کے لیے اپنے آپ کو ذہنی طور تیار نہیں کر پاتے۔

شیئر: