Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عالمی ادارہ صحت کے کارکنوں پر جنسی ہراسیت کے الزامات، ’کارروائی کی جائے‘

ڈبلیو ایچ او کے بعض کارکنوں پر جنسی ہراسیت کے الزامات سامنے آئے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
50 سے زائد ممالک نے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے اندر جنسی ہراسیت کے واقعات کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اقوام متحدہ کے ادارے کے ایگزیکٹیو بورڈ اجلاس میں ممالک کی جانب سے زور دیا گیا کہ ہراسیت کا نشانہ بننے والے افراد کا ساتھ دیا جائے۔
عالمی ادارہ صحت کو اس انکشاف کے بعد دباؤ کا سامنا ہے کہ 2020 میں اس کے امدادی کارکن کانگو میں جنسی زیادتی کے واقعات میں ملوث رہے۔
برطانوی سفیر سائمن مینلے نے 57 ممالک کا مشترکہ بیان پڑھ کر سنایا جس میں زیادتی کے الزامات پر ’گہری تشویش اور تحفظات‘ کا اظہار کیا گیا تھا جو کہ مبینہ طور پر ادارے کے کارکنوں اور ٹھیکیداروں پر لگائے گئے۔
ان ممالک میں یورپی یونین کے 27 ممالک کے علاوہ جنوبی افریقہ، انڈیا، انڈونیشیا، تھائی لینڈ، ملائیشیا، چلی، جاپان، امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، میکسیکو، الجیریا، ارجنٹائن، برازیل، شمالی کوریا اور یوکرین شامل ہیں۔
ممالک کی جانب سے اس امر کو تسلیم کیا گیا اور سراہا گیا کہ حالیہ برسوں کے دوران ہراسیت کا نشانہ بننے والے افراد اور غیرقانونی واقعات کی اطلاع دینے والے ’وسل بلوورز‘ نے بہت بہادری سے کام کیا۔
ممالک کی جانب سے کہا گیا کہ ’دیانت داری، شفافیت اور احتساب کی بنیاد پر کام کرنے کے ماحول کو پروان چڑھانا بہت اہم ہے۔‘
’ہم عالمی ادارہ صحت کی انتظامیہ کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ آگے اور مثال قائم کرے جس میں ذمہ داری اور جواب دہی کے نکات شامل ہوں۔‘

کارکنوں پر جنسی ہراسیت کے الزامات کے بعد عالمی ادارہ صحت کو دباؤ کا سامنا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

مشترکہ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’ہم ڈبلیو ایچ او کی جانب سے سٹاف کی تربیت اور استعداد کار کی بہتری کے لیے ہونے والے اقدامات کی حمایت کرتے ہیں۔ اس کو متاثرین اور مجرموں کے درمیان طاقت کے فرق اور عدم مساوات کے حوالے سے بھی آگاہی پیدا کرنی چاہیے جو کہ جنسی حملوں کی جڑوں میں ہے۔
ممالک کی جانب سے جنسی حملوں کے متاثرین اور زندہ بچ جانے والوں پر توجہ مرکوز کرنے کا بھی مطالبہ بھی کیا گیا۔
’شکایات کو بروقت نوٹس لیا جائے اور اس کے ذمہ داروں کا احتساب کیا جائے۔ ہم ڈبلیو ایچ او کے تفتیشی عمل کو مزید موثر بنانے کی بھی حمایت کرتے ہیں۔‘
ملکوں کے نمائندوں کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ ’ہم توقع کرتے ہیں کہ رکن ممالک کو فوری طور پر خفیہ رپورٹنگ فراہم کی جائے جس میں جنسی حملوں کے خلاف ایکشن کی تفصیلات بھی شامل ہوں۔‘
34 ارکان پر مشتمل ایگزیکٹیو بورڈ کا کام رکن ممالک کی ورلڈ ہیلتھ اسمبلی سے مشاورت کرنا ہے جو کہ ڈبلیو ایچ او کے فیصلے کرنے والی باڈی ہے اور ان پر عملدرآمد بھی کرواتی ہے۔
ایگزیکٹیو بورڈ کا ایک سو 52واں سیشن پیر سے شروع تھا اور سات فروری تک جاری رہے گا۔
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی قسم کی جنسی ہراسیت کے حوالے سے زیرو ٹالیرنس کی پالیسی رکھتا ہے اور اس کے کسی ورکر پر ایسا کوئی الزام سامنے آئے تو فوری ایکشن لیا جاتا ہے۔

شیئر: