Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چار بڑی سوشل میڈیا کمپنیاں خواتین کے خلاف آن لائن ہراسیت روکنے کے لیے پُرعزم

رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ایک تہائی سے زیادہ خواتین کو آن لائن ہراسیت کا سامنا کرنا پڑا (فوٹو اے ایف پی)
دنیا میں چار بڑے سوشل نیٹ ورکس نے کہا کہ وہ اپنے پلیٹ فارمز پر خواتین کے خلاف ہونے والی ہراسیت کو روکنے کے لیے نظام بنائیں گے۔
برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق فیس بک، گوگل، ٹک ٹاک اور ٹوئٹر نے ورلڈ وائڈ ویب فاؤنڈیشن کی سربراہی میں یہ اقدام کرنے کی حامی بھری ہے۔
یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پیرس میں ’یو این ویمن‘ کے تحت جنسی برابری پر ایک فورم جاری ہے۔
اکانومسٹ انٹیلیجنس یونٹ کی 2021 کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ایک تہائی سے زیادہ خواتین کو آن لائن ہراسیت کا سامنا کرنا پڑا جن میں سے آدھی چھوٹی عمر کی خواتین تھیں۔
چار بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں نے خواتین کے خلاف اس رویے کی دو بڑی وجوہات کی نشاندہی کی ہے جن میں خواتین کے پاس اس چیز کا اختیار نہ ہونا کہ ان کی پوسٹ پر کون جواب دے سکتا ہے یا تبصرہ کر سکتا ہے، اور آن لائن ہراسیت کے خلاف رپورٹ کرنے کے قابل بھروسہ نظام کا نہ ہونا ہے۔
 خواتین کے پاس اختیار نہ ہونے کے حوالے سے یہ کمپنیاں ایسی سیٹنگز متعارف کروائیں گی جن سے صارفین اپنی حفاظت خود کر سکیں گے۔ مثال کے طور پر ان کے پاس اختیار ہوگا کہ وہ پوسٹس پر جواب دینے والوں کو مکمل طور پر یا اسی پوسٹ پر بلاک کر سکیں۔
فیس بک، گوگل، ٹک ٹاک اور ٹوئٹر نے سادہ زبان استعمال کرنے کا بھی کہا ہے تاکہ صارفین کی سیفٹی ٹولز تک رسائی ہو سکے۔
خواتین کے خلاف ہونے والی ہراسیت کو رپورٹ کرنے کے حوالے سے سوشل میڈیا کمپنیوں کا کہنا ہے کہ صارفین رپورٹ کو ٹریک کر سکیں گے۔
ان کمپنیوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ایسے صارفین کے لیے مزید رہنمائی فراہم کریں گی جو ہراسیت کو رپورٹ کرنا چاہتے ہیں۔

سوشل میڈیا کمپنیوں کا کہنا ہے کہ صارفین ہراسیت کے خلاف رپورٹ کو ٹریک کر سکیں گے (فوٹو: یوئی موک)

ورلڈ وائڈ ویب فاؤنڈیشن کی سینیئر پالیسی مینیجر ازمینا دھرودیا نے کہا کہ ’کافی عرصے سے خواتین کو تواتر کے ساتھ آن لائن ہراسیت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، ان پر حملہ کیا جا رہا ہے اور انہیں چپ کروایا جا رہا ہے۔ یہ جنسی برابری کے لیے کی جانے والی پیش رفت کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔‘
’فیس بک، گوگل، ٹک ٹاک اور ٹوئٹر کے پاس طاقت ہے کہ وہ ہراسیت پر قابو پائیں اور دنیا میں کروڑوں خواتین کو آن لائن ہراسیت سے محفوظ کریں۔‘

شیئر: