Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اب اشرافیہ کی باری ہے، ماریہ میمن کا کالم

عوام کے سامنے ساری تصویر ہے کہ پاکستان کو ان حالات تک اشرافیہ نے پہنچایا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
معیشت کے حالت سنبھلتے نظر نہیں آ رہی۔ حکومت نے منتیں ترلے کر کے آئی ایم ایف کو بلا لیا ہے مگر اس میں بھی نئے امتحان ہیں۔ آئی ایم ایف کی مدد نئی سے نئی شرائط کے ساتھ مشروط ہے۔ دوسری جانب دوست ملکوں کی طرف سے مدد آئی ایم ایف کے گرین سگنل کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔
باوجود ہر کوشش کے تمام طرف سے ایک ہی پیغام ہے: پہلے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرو اس کے بعد کسی مناسب مدد کی توقع کرنا۔
معیشت کی زبوں حالی کا سب سے زیادہ اثر غریب عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ پہلے ہی مہنگائی آسمانوں سے باتیں کر رہی ہے اوپر سے روپے کی قدر گرتے ہی پیٹرول کی قیمت قابو سے باہر ہو گئی۔ اب نئی شرطوں کے مطابق بجلی کے گردشی قرضے کم کرنے کے لیے بھی سارا وزن عوام پر پڑے گا۔
ایک بار پھر بجلی مہنگی ہو گی۔ گیس اور بجلی کی قیمت کو ملا کر عوام کے گھروں میں چولہے ٹھنڈے ہی رہیں گے۔ تیل کی قیمتوں کی وجہ سے سفر کرنا پہلے ہی ایک آزمائش ہے۔ عوام کا اس سے زیادہ ناطقہ کیا بند ہو گا؟
سوال یہ ہے کہ عوام کب تک یہ بوجھ برداشت کریں گے؟ کیا اشرافیہ کی باری کبھی نہیں آئی گے؟ جبکہ عوام کے سامنے ساری تصویر ہے کہ پاکستان کو ان حالات تک اشرافیہ نے پہنچایا ہے۔ یہی اشرافیہ ساری سیاسی جماعتوں میں بھی اور سارے حکومتی اداروں میں بھی براجمان ہے۔
یہ اشرافیہ کاروباری طبقے میں بھی ہے اور میڈیا میں بھی۔ پاکستان کے حالات جو بھی ہوں یہ طبقہ ہمیشہ پھلتا پھولتا ہی رہتا ہے۔
اسی اشرافیہ کی ہاؤسنگ سوسائٹیاں اور پلازے ہیں، شوگر مِلیں اور کھاد کی فیکٹریاں ہیں، اور دوسرے ملکوں کی میں شہریت اور اثاثے بھی کہ کبھی حالات خراب ہوں تو فوراً کوچ کر جائیں۔
عوام یہ بھی خیال کرتے ہیں کہ یہ بحران اشرافیہ کے اللوں تللوں کی وجہ سے آیا ہے۔ اس وقت جب کہ عوام کو توانائی میسر نہیں مگر سرمایہ داروں کو بدستور سستی اور فوری انرجی مل جاتی ہے۔ درآمدات اور برآمدات میں عدم توازن ملک میں معاشی بحران کی ایک بنیادی وجہ ہے مگر تیل، دوائیوں اور کچھ خوردونوش کی اشیا کو چھوڑ کر باقی کیا اب کچھ اشرافیہ کے لیے نہیں ہے۔
ضروری اشیا کی بات کریں تو کیوں آخر ضروری اشیا ملک میں پیدا کرنے کے بجائے باہر سے منگوانے کی پالیسیز بنائی گئیں؟ آخر کیوں چینی جس کی پیداوار کے لیے کسانوں کی بودو باش کو ختم کیا گیا وہ تک باہر سے منگوانی پڑتی ہے۔

ایسی حکومت کو چلانے پر کھربوں خرچ ہو رہے ہیں جو عوام کے لیے باعث رحمت نہیں صرف باعث زحمت ہے (فوٹو: اے ایف پی)

گندم جو ملک کی اندر پیدا ہوتی ہے اس تک کی قیمت تک تو حکومت اور کوئی بھی حکومت کنٹرول نہیں کر سکی۔ چینی، دودھ، مرغی سے لے کر آئی پی پی تک ہر صنعت میں اشرافیہ کا ایک گروہ نمایاں ہے جو بظاہر آپس میں اختلاف رکھتے ہیں، مگر سب کے کاروبار دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتے جا رہے ہیں۔  
حکومت کا کام پالیسی سازی کے ساتھ ٹیکس کو بڑھانا اور یہ ممکن بنانا ہے کہ ٹیکسوں کا بوجھ غریبوں کے بجائے امیروں پر پڑے۔ پاکستان میں ٹیکس یا بالواسطہ صارف سے اکٹھا کیا جاتا ہے اور یا پھر تنخواہ داروں کی آمدنی سے کاٹ لیا جاتا ہے۔ ملک کی معیشت کا ایک بڑا حصہ ٹیکس کی حددود سے باہر رہتا ہے۔ جو ٹیکس دیتا بھی ہے ان کے پاس بچنے کے ہزار راستے ہیں۔
دوسری طرف ٹیکس خرچ کرنے کا موقع آئے تو حکومت کو اپنے آپ پر خرچ کے علاوہ کوئی نظر نہیں آتا۔ ایسی حکومت کو چلانے پر اربوں نہیں کھربوں خرچ ہو رہے ہیں جو امن و امان نہیں قائم رکھ سکتی، قدرتی آفات کا مقابلہ نہیں کر سکتی، جو قیمتوں کو کنٹرول نہیں کر سکتی اور اپنے اندر سے کرپشن ختم نہیں کر سکتی جو عوام کے لیے باعث رحمت نہیں صرف باعث زحمت ہے۔  
ملک کی یہ اشرافیہ، جو سیاستدانوں، سرمایہ داروں اور سرکاری اداروں پر مشتمل ہے، کی تعداد شاید ملک کی آبادی کے ایک فیصد سے بھی زیادہ نہ ہو۔ یہ اشرافیہ ملک کے وسائل پر قابض اور مسائل کی وجہ ہے۔
مگر ہر بحران اور ہر مسئلے کی قیمت عوام کو ادا کرنا پڑتی ہے اور یہ کھیل 75 سال سے اسی طرح کھیلا جا رہا ہے۔ اب وہ وقت ہے کہ عوام کے پاس ادراک تو ہے مگر ان کے آپشنز ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کے پاس نظر بھی ہے اور زبان بھی اور وہ ان دونوں کا استعمال کرتے ہوئے باور کرا رہے ہیں کہ اب اشرافیہ کی باری ہے۔ 

شیئر: