Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ترکیہ اور شام میں زلزلہ، ہلاکتیں 50 ہزار سے بڑھ سکتی ہیں: اقوام متحدہ

وقت گزرنے کے ساتھ ملبے میں زندہ بچ جانے والوں کے حوالے سے اُمیدیں دم توڑ رہی ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
ترکیہ اور شام میں تباہ کن زلزلے سے ہلاکتوں کی تعداد 28 ہزار سے بڑھ گئی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ملبے میں زندہ بچ جانے والوں کے حوالے سے اُمیدیں دم توڑ رہی ہیں۔
اقوام متحدہ کی امدادی ایجنسی کے سربراہ مارٹن گریفتھ نے کہا ہے کہ زلزلے سے ہلاکتوں کی تعداد 50 ہزار سے بڑھ سکتی ہے۔
خبر رساں ایجنسیوں کے نمائندے متاثرہ علاقوں سے زخمیوں اور بچ جانے والوں کی المناک کہانیاں دنیا بھر میں پڑھنے، دیکھنے اور سننے والوں تک پہنچا رہے ہیں جن میں زندگی کی بے ثباتی نمایاں ہے۔
عرب نیوز کے مطابق گزشتہ پیر کی صبح جب ترکیہ کے جنوب مشرق میں زلزلے کا پہلا جھٹکا آیا تو مقامی رہائشی بارس یاپر گھر سے فورا باہر نکل آئے۔ جب وہ قریب رہائش پذیر اپنے دادا اور دادی کو دیکھنے گئے تو وہاں عمارت کے بجائے ملبے کا ڈھیر تھا۔
بارس یاپر نے ہاتے صوبے کے ضلع سمندگ میں واقع اپنے گھر کے قریب عرب نیوز کو بتایا کہ ’ہم پوری رات انتظار کرتے رہے۔ متعدد فون کالز کیں لیکن کوئی مدد کو نہ پہنچ سکا۔‘
’تقریبا 40 گھنٹے گزرنے کے بعد ہم نے خود ضروری سامان کرائے پر حاصل کر کے عمارت کے ملبے کے ایک حصے کو توڑا۔‘
زلزلے کے فوری بعد کا وقت تلاش اور ریسکیو کی کوششوں کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ لیکن متاثرہ علاقے میں تباہ کن زلزلے کے باعث سڑکوں بلاک ہو گئیں یا پھر بری طرح ٹوٹنے کی وجہ سے امدادی ٹیموں کو پہنچنے میں مشکلات کا سامنا رہا۔
زلزلے کے 60 گھنٹوں کے بعد صرف چند بنیادی اوزار اور اپنے ہاتھوں کا استعمال کرتے ہوئے یاپر اور دیگر رہائشی اپنے رشتہ داروں کو ملبے کے پہاڑ سے نیچے سے نکالنے میں کامیاب ہو گئے، لیکن اُن کے دادا دادی زندہ نہیں بچ سکے۔
بارس یاپر نے کہا کہ ’ہمیں اپنی دادی اور دادا کو ان کی منہدم عمارت سے باہر نکالنے کے بعد کوئی ایمبولینس یا جنازے کی گاڑیاں نہیں ملیں۔‘
’ہم انہیں مردہ خانے تک اپنے ٹرنک میں لے گئے۔ پھر ہم دوسرے دن سینکڑوں دوسرے لوگوں کے درمیان ان کی لاشیں ڈھونڈنے آئے۔ آخر کار ہم نے انہیں ڈھونڈ نکالا اور انہیں دفنانے کے لیے اپنی گاڑی میں قبرستان لے گئے۔‘

سرکاری نیوز ایجنسی انادولو نے بتایا کہ ترک حکام نے لوٹ مار کے الزام میں 48 افراد کو گرفتار کیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

پیر کے تباہ کن زلزلے کے تقریباً ایک ہفتہ بعد ریسکیو ٹیمیں اب بھی جنوب مشرقی ترکی کے قصبوں اور شہروں میں عمارتوں کے ملبے میں زندگی کے آثار تلاش کر رہی ہیں، اس کے باوجود کہ بچ جانے والوں کی امیدیں ختم ہو رہی ہیں۔
بارس یاپر اور اُن جیسے دوسرے خاندان اب اپنی زندگی نئے سرے سے شروع کرنے کے لیے سوچ بچار کر رہے ہیں۔ اُن کے گھر جزوی طور پر تباہ ہیں مگر وہ رہائش کے قابل نہیں رہے۔
وہ تباہ شدہ گھروں سے بچا کھچا سامان نکال کر زندگی کو دوبارہ تعمیر کریں گے۔
انہوں نے عرب نیوز کو بتایا کہ ضلع میں کوئی موبائل ٹوائلٹ نہیں ہے۔ ’ہمارے پاس اب بھی ہیٹر اور بوتل بند گیس نہیں ہے۔‘
بارس یاپر نے بتایا کہ ’کچھ دنوں سے لوٹ مار کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ سیکورٹی خدشات بھی ہیں کیونکہ لٹیرے افراتفری کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔‘
سرکاری نیوز ایجنسی انادولو نے بتایا کہ ترک حکام نے لوٹ مار کے الزام میں 48 افراد کو گرفتار کیا ہے۔

شیئر: