Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ضیا محی الدین: ’وہ آواز جس نے ہمیں اردو زبان کی محبت میں گرفتار کیا‘

ضیا محی الدین نے 1949 میں گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن کیا۔ (فائل فوٹو: آرٹس کونسل)
پاکستان کے نامور اداکار، صداکار اور میزبان ضیا محی الدین 91 سال کی عمر میں کراچی میں انتقال کر گئے ہیں اور ان کی نماز جناز ڈیفنس فیز فور میں ادا کر دی گئی ہے۔
سنہ 1931 میں پنجاب کے شہر فیصل آباد میں پیدا ہونے والے ضیا محی الدین پاکستان کی پہلی فلم ’تیری یاد‘ کے لکھاری تھے۔
اپنی بھاری بھرکم جادوئی آواز کے سبب لوگوں کے دلوں میں گھر کر جانے والے ضیا محی الدین کی موت پر پاکستان بھر میں ان کے چاہنے والے دکھ کا اظہار کر رہے ہیں۔
پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان بھی ان کے مداحوں میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’ضیا محی الدین کی وفات سے دکھ ہوا ہے۔ میں انہیں دہائیوں سے جانتا تھا۔‘
سابق وزیراعظم نے مزید لکھا کہ ضیا محی الدین انٹرٹینمنٹ کی دنیا میں ایک ادارے کی حیثیت رکھتے تھے اور انہیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
اردو ادب اور شاعری کی دنیا میں مستند مقام رکھنے والے آن لائن پورٹل ’ریختہ‘ نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’ضیا محی الدین کی موت ایک صدمہ ہے، جس سے ایک ایسا خلا پیدا ہوا جو کبھی پُر نہیں ہو سکے گا۔‘
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے بھی ایک ٹویٹ میں ضیا محی الدین کی موت پر دکھ کا اظہار کیا گیا۔ وزیراعظم شہباز شریف کی جماعت کا ایک ٹویٹ میں کہنا تھا کہ ’ان کی آرٹس کے لیے خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا۔‘
گلوکار شفقت امانت علی نے لکھا کہ ’ضیا محی الدین صاحب صرف ایک لیجنڈ یا آئیکون نہیں تھے بلکہ اپنے آپ میں ایک ادارہ تھے جنہوں نے نسلوں کو متاثر کیا اور بنایا۔‘
شان نامی صارف نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’وہ آواز جس نے ہمیں اردو زبان کی محبت میں گرفتار کیا، وہ آواز اب دنیا میں نہیں رہی۔‘
انڈین صحافی امن ملک نے ایک لکھا کہ ’یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں دہلی میں ضیا محی الدین صاحب کے ساتھ کچھ وقت گزار سکا ان کے آخری انڈیا کے دورے کے دوران۔‘
ضیا محی الدین نے 1949 میں گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن کیا جبکہ اس کے بعد آسٹریلیا اور انگلینڈ میں بھی تعلیم حاصل کرتے رہے۔ وہ رائل اکیڈمی آف تھیٹر آرٹس سے بھی وابستہ رہے اور ڈائریکشن کی تربیت بھی حاصل کی جبکہ اداکاری اور صداکاری کی طرف بھی آئے۔
سنہ 1960 میں ای ایم کے ناول ’پیسیج ٹو انڈیا‘ پر سٹیج ڈرامہ بنا تو اس میں ضیا محی الدین نے ڈاکٹر عزیز کا کردار ادا کیا تھا جبکہ اس کے بعد مشہور فلم ’لارنس آف عریبیہ‘ میں بھی کام کیا۔
اس کے بعد بھی وہ سٹیج سے جڑے رہے اور لاتعداد ڈراموں کے علاوہ چند ہالی وُڈ فلموں میں بھی کام کیا۔
سنہ 1970 میں جب وہ پاکستان آئے تو پاکستان ٹیلی ویژن پر ’ضیا محی الدین شو‘ کے نام سے سٹیج پروگرام شروع کیا جو بہت مقبول ہوا۔
اسی طرح انہوں نے ایک پاکستانی فلم ’مجرم کون‘ میں بھی کام کیا تھا۔
وہ  پی آئی اے آرٹس اکیڈمی کے ڈائریکٹر کے عہدے پر بھی کام کرتے رہے۔
ضیا محی الدین ادبی فن پاروں کو صداکاری کے ذریعے پیش کرنے کے لیے خصوصی شہرت رکھتے تھے انہوں نے پی ٹی وی کے علاوہ کئی نجی چینلز کے پروگراموں میں بھی اہم مضامین اور ناولز کے اقتباسات پڑھ کر سنائے۔
ان کو تمغۂ حسن کارکردگی اور ہلالِ امتیاز سمیت متعدد اعزازات سے بھی نوازا گیا۔

شیئر: