Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کئی ہفتوں کی خاموشی کے بعد ایرانی مظاہرین ایک بار پھر سڑکوں پر

گزشتہ برس ستمبر میں مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد ایران میں مظاروں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ (فوٹو: روئٹرز)
سوشل میڈیا پر جمعے کو سامنے آنی والے ویڈیوز کے مطابق ایران میں مظاہروں کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہو گیا ہے اور مبینہ طور پر کئی شہروں میں مظاہرین نے مارچ کیا ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق یہ مظاہرے ایران کی جانب سے دو افراد کو پھانسی دینے کے 40 دن مکمل ہونے پر ملک میں جاری غصے کو ظاہر کرتے ہیں۔
ان دو افراد پر حکومت مخالف مظاہروں میں شریک ہونے کے الزامات تھے۔
گزشتہ برس 16 ستمبر کو ایرانی پولیس کی حراست میں 22 سالہ مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ یہ مظاہرے سنہ 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد قائم ہونے والی مذہبی حکومت کے لیے ایک سنگین چیلنج میں تبدیل ہو گئے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیم ھرانا کے مطابق ویڈیوز میں ایران کے دارالحکومت تہران کے ساتھ ساتھ خوزستان صوبے کے شہروں اراک، اصفہان، ایذه اور کرج شہر میں مظاہروں کو دکھایا گیا ہے۔
ایران کے مغربی کرد علاقوں میں انسانی حقوق کی تنظیم ھہ نگاو کی جانب سے شیئر کی گئی آن لائن ویڈیوز میں سنندج شہر میں سڑکوں پر رکاوٹیں دکھائی دے رہی ہیں۔ اس شہر میں مہسا امینی کی موت کے بعد سے مظاہرے دیکھنے میں آئے ہیں۔
ھہ نگاو نے ایک ویڈیو شیئر کی جس میں ڈیجیٹل طور پر تبدیل شدہ آوازیں ’مرگ بر ڈکٹیٹر‘ شامل تھیں۔ ایران کے 83 سالہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں یہ نعرہ بار بار سنا گیا ہے۔
ایران کے سرکاری میڈیا نے فوری طور پر مظاہروں کے حوالے سے کوئی خبر جاری نہیں کی۔
ایران میں انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق آغاز سے اب تک مظاہروں میں 529 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ حکومت کی جانب سے ہونے والے کریک ڈاؤن میں اب تک 19 ہزار سات سو سے زائد افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

شیئر: