Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آفتاب سلطان کا دور کیسا رہا، نئے چیئرمین نیب کا تقرر کتنا بڑا چیلنج ہوگا؟ 

آفتاب سلطان کے دور میں اپوزیشن کے کسی رہنما پر کوئی نیا مقدمہ یا ریفرنس دائر نہیں ہوا (فائل فوٹو: پی ٹی آئی ٹوئٹر)
پاکستان میں احتساب کے ادارے (نیب) کے چیئرمین آفتاب سلطان جنہیں گذشتہ سال موجودہ حکومت نے ہی تعینات کیا تھا یہ کہتے ہوئے مستعفی ہوگئے ہیں کہ ’وہ آئین اور قانون سے ہٹ کر کسی دباؤ کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔‘  
اس صورت حال میں موجودہ حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ انھوں نے نیب کو پاکستان تحریک انصاف کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی۔
چیئرمین نیب نے ان کا آلہ کار بننے سے انکار کر دیا۔ وہیں آفتاب سلطان اور جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کے درمیان موازنہ بھی کیا جا رہا ہے۔  
یہی وجہ ہے کہ آفتاب سلطان کے استعفے کو موجودہ حکومت کے لیے ایک دھچکہ قرار دیا جا رہا ہے۔ آفتاب سلطان کو شریف خاندان کا وفادار قرار دینے والی تحریک انصاف نے بھی ان کے فیصلے کا خیرمقدم قرار دیا ہے۔  
اپنے ردعمل میں تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ ’چیئرمین نیب کا استعفیٰ فاشسٹ نظام کے ٹوٹنے کی طرف بڑا قدم ہے۔ آفتاب سلطان نے اپنے کام میں مداخلت کے خلاف استعفیٰ دیا۔‘
’چیئرمین نیب کا استعفیٰ تحریک انصاف کے مؤقف کی واضح توثیق ہے۔ روزِ اول سے کہہ رہے ہیں کہ نظامِ احتساب کی تباہی این آر او دے کر لائے گئے مجرموں کا کلیدی ہدف ہے۔‘  
آفتاب سلطان کا دور کیسا رہا؟  
جولائی 2022 میں پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کے وزیراعظم شہباز شریف اور اپوزیشن لیڈر راجا ریاض کی مشاورت سے تعینات ہونے والے آفتاب سلطان کا دور اس حوالے سے اہم رہا ہے کہ اس دوران اپوزیشن کے کسی رہنما پر کوئی نیا مقدمہ یا ریفرنس دائر نہیں ہوا اور نہ ہی کوئی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے۔ 
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ہدایت پر توشہ خانہ، مالم جبہ، بی آر ٹی کیسز کی نئے سرے سے تحقیقات ضرور شروع ہوئیں لیکن ان میں کوئی بڑی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔ اسی طرح نیب آرڈیننس میں ترامیم کے باعث سینکڑوں مقدمات ختم ہوگئے۔  

آفتاب سلطان کے دور میں پی اے سی کی ہدایت پر توشہ خانہ، مالم جبہ، بی آر ٹی کیسز کی نئے سرے سے تحقیقات شروع ہوئیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اس لیے کہا جاتا ہے کہ آفتاب سلطان کا دور احتساب کے حوالے سے اوسط درجے کا دور تھا جس میں انھوں نے صرف ادارے کے اندر رہ کر کام کیا اور کسی قسم کا کوئی ایڈونچر نہیں کیا جو ماضی میں ادارے کے چیئرمین کرتے رہے ہیں۔  
اردو نیوز سے گفتگو میں ایڈووکیٹ اکرام چوہدری نے کہا کہ ’آفتاب سلطان نے کوئی ایسا فیصلہ نہیں کیا جسے ایکسٹریم فیصلہ کہا جا سکے۔‘
’ان کے استعفے کی بھی کوئی دوسری وجہ نظر نہیں آتی کہ انھوں نے ایسا کوئی فیصلہ کرنے سے اختلاف کیا جو ماضی میں احتساب کے ادارے کو استعمال کرکے کیے جاتے رہے ہیں۔‘  
انھوں نے کہا کہ ’ایک ایسے وقت میں جب ملک میں کئی محاذوں پر آئینی بحران جنم لے رہے ہیں چیئرمین نیب کا استعفیٰ ایک درست عمل ہے کہ انھوں نے  نیب کے سابق سربراہان کی طرح نوکری بچانے یا اسے دوام دینے کے لیے کسی سیاست دان کو بَلی کا بکرا بنانے کے بجائے اپنی نوکری قربان کرکے ایک طرف ہوگئے ہیں۔‘  
نئے چیئرمین نیب کی تعیناتی کتنا بڑا چیلنج ہے؟  
جولائی 2022 میں آفتاب سلطان کی بطور چیئرمین نیب تعیناتی کے وقت حکومت کے پاس اپنے ہم نوا قائد حزب اختلاف تھے۔ اس لیے آئینی طور پر تعیناتی میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہیں تھی اور تحریک انصاف کی مخالفت اور تعیناتی کو چیلنج کرنے کے اعلان کے باوجود اس کے لیے تمام قانونی لوازمات پورے کیے گئے تھے۔  

جولائی 2022 میں وزیراعظم شہباز شریف اور اپوزیشن لیڈر راجا ریاض نے چیئرمین نیب کا تقرر کیا تھا (فائل فوٹو: پی ایم آفس)

اس وقت بھی اگرچہ قائد حزب اختلاف راجا ریاض ہی ہیں لیکن لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے تحریک انصاف کے 70 ارکان کی بحالی کے بعد صورت حال یکسر تبدیل ہوگئی ہے۔
تحریک انصاف نے ایوان میں اپنا قائد حزب اختلات لانے کے لیے باضابطہ درخواست بھی سپیکر قومی اسمبلی کے پاس جمع کرا دی ہے۔  
ایسے میں حکومت کے لیے چیئرمین نیب کی تعیناتی ایک بہت بڑا چیلنج ثابت ہوسکتی ہے۔ ایڈووکیٹ حسن رشید کے مطابق ’سپیکر کے کسی بھی فیصلے سے پہلے وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف باہمی مشاورت سے نئے چیئرمین نیب کی تعیناتی عمل میں لا سکتے ہیں۔’
’یہ ایک آئینی تقاضا ہے، اسے آئینی تقاضے پورے کرتے ہوئے عمل میں لایا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔‘
تاہم ایڈووکیٹ اکرام چودھری سمجھتے ہیں کہ ’نیب کے حوالے سے ترامیم پہلے ہی سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہیں۔ سپریم کورٹ احتساب کے معاملات پر جوڈیشل نگرانی رکھتی ہے۔‘
’نیب کے حوالے سے کئی ایک فیصلے بھی ریکارڈ پر موجود ہیں۔ اس لیے کوئی بھی ایسی تعیناتی سپریم کورٹ میں چیلنج ہو سکتی ہے۔  

اب حکومت کے لیے چیئرمین نیب کی تعیناتی ایک بہت بڑا چیلنج ثابت ہوسکتی ہے (فائل فوٹو: اے پی پی)

انھوں نے کہا کہ ’بہتر ہوگا کہ سپیکر تحریک انصاف کی درخواست پر فیصلہ کریں اور اس کے بعد حکومت اور اپوزیشن کی مشاورت کے بعد چیئرمین نیب کا تقرر کیا جائے۔‘
’اس کے برعکس اگر کچھ ہوا جس کا زیادہ امکان بھی ہے کہ حکومت ایسا بندہ لانا چاہے گی جو ان کے کام آسکے تو پھر عوام، وکلا اور عدلیہ کی جانب سے ردعمل آئے گا اور معاملہ سپریم کورٹ میں چلا جائے گا۔‘  
چیئرمین نیب کی تعیناتی کا طریقہ کار کیا ہے؟  
ایڈووکیٹ سپریم کورٹ حافظ احسان احمد کھوکھر کے مطابق ’سنہ 2022 میں تازہ ترین ترمیم کے پیش نظر چیئرمین نیب کی تقرری کے لیے قومی احتساب بیورو آرڈیننس 1999 کے سیکشن 6 میں ایک نیا طے شدہ طریقہ کار موجود ہے۔‘
 ’اس کے تحت وفاقی حکومت کی طرف سے چیئرمین نیب کی تعیناتی تین سال کی مدت کے لیے کی جا سکتی ہے اور اس میں توسیع نہیں کی جا سکتی۔‘
  آئینی ماہر کے مطابق ’چیئرمین قومی احتساب بیورو کا تقرر وفاقی حکومت قائد ایوان اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے درمیان مشاورت کے بعد کرے گی۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’چیئرمین نیب کے نام پر اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کی جانب سے تجویز کردہ نام پارلیمانی کمیٹی سپیکر قومی اسمبلی تشکیل دے گی۔‘
’اس میں 50 فیصد حکومتی اور 50 فیصد اپوزیشن بینچوں پر مشتمل ہوں گے۔ کمیٹی نئے چیئرمین کا حتمی فیصلہ اتفاق رائے یا کثرت رائے سے کرے گی۔‘

شیئر: