Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بارکھان میں تہرے قتل کی تحقیقات شروع

بارکھان میں تہرے قتل کی اعلٰی سطح پر تحقیقات شروع کا آغاز کر دیا گیا  ہے اور انکوائری کمیٹی کے سربراہ ڈی آئی جی لورالائی سلیم لہڑی بارکھان پہنچ گئے ہیں۔
ایس پی بارکھان نور محمد بڑیچ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’خان محمد مری کے بچوں کی بارکھان سے ملحقہ ضلع کوہلو میں موجودگی کی اطلاع ملی ہے جس پر ان کی سربراہی میں پولیس ٹیم کوہلو پہنچ گئی ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’ضلع موسیٰ خیل کے پولیس سربراہ بھی ٹیم کے ہمراہ ہیں۔ ابھی تک بچے بازیاب نہیں ہوئے، تاہم ہائی پروفائل کیس کی اعلٰی سطح پر تحقیقات جاری ہیں۔‘
اس سے قبل سوشل میڈیا پر کوہلو کے ایک وڈیرے جلات خان ژنگ کے نام سے بلوچی زبان میں آڈیو پیغام جاری ہوا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’رات کو میں ان کی (خان محمد مری) اہلیہ، بیٹی اور ایک بیٹے کو اپنے گھر لے آیا ہوں۔‘
’جو خاتون قتل ہوئی تھیں وہ ان کی اہلیہ نہیں بلکہ کوئی اور تھی۔ یہ خاتون اور بچے ہمارے گھر پر ہیں باقیوں کو بھی ہم ڈھونڈ رہے ہیں۔اللہ خیر کرے گا۔‘
کوہلو کے صحافی یوسف مری نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’یہ بیان جلات خان ژنگ کے ایک قریبی شخص غلام ژنگ نے سوشل میڈیا پر جاری کیا تھا، تاہم اب جلات خان ژنگ اپنے بیان سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔‘
یوسف مری کے مطابق ’جلات خان ژنگ کے بڑے بھائی رب نواز ژنگ نے کہا ہے کہ بچے ہمارے پاس نہیں لیکن ہم ان کی بازیابی کے لیے کوشش کررہے ہیں۔‘
کوئٹہ میں مغویوں کی بازیابی کے لیے جاری دھرنے کی سربراہی کرنے والے مری اتحاد کے جنرل سیکریٹری جہانگیر مری کا کہنا ہے کہ ’ہمیں مختلف ذرائع سے پیغامات پہنچائے جا رہے ہیں کہ تین بچے حوالے کردیں گے آپ دھرنا ختم کریں باقی دو بچے بھی بعد میں آپ کے حوالے کر دیے جائیں گے لیکن ہم پانچوں بچوں کی بازیابی سے پہلے تک احتجاج سے نہیں اٹھیں گے۔‘

پولیس نے دو دن گزرنے کے باوجود واقعے کا مقدمہ اب تک درج نہیں کیا (فوٹو: اردو نیوز)

پولیس حکام کے مطابق ’بارکھان کے علاقے حاجی کوٹ میں سردار عبدالرحمان کھیتران کی رہائش گاہ پر پولیس کی ٹیم نے منگل اور بدھ کی درمیانی شب چھاپہ مارا تاہم وہاں سے کوئی برآمدگی نہیں ہوئی۔ پولیس نے دو ملازمین کو تفتیش کی غرض سے حراست میں لیا ہے۔‘
پولیس نے دو دن گزرنے کے باوجود واقعے کا مقدمہ اب تک درج نہیں کیا تھا تاہم بدھ کو آئی جی پولیس بلوچستان نے مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’پولیس کی مدعیت میں واقعے کی ایف آئی آر درج کرلی گئی اور کیس کرائم برانچ کے حوالے کر دیا گیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’صوبائی وزیر سردار عبد الرحمان کھیتران کو بھی شامل تفتیش کریں گے۔ ‘
بلوچستان پولیس کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’آئی جی پولیس بلوچستان عبدالخالق شیخ بارکھان واقعے کی خود اپنی نگرانی میں تفتیش کررہے ہیں۔‘
’مظاہرین اور لواحقین کو یہ یقین دہانی کرائی جاتی ہے کہ خاندان کے باقی افراد کی بازیابی کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں اور جلد بہتر پیش رفت کی توقع ہے۔‘
ترجمان کا کہنا ہے کہ ’پولیس کی خصوصی ٹیمیں خفیہ اطلاعات پر مغویوں کی بازیابی کے لیے کارروائی کر رہی ہیں۔‘
پولیس ترجمان نے مزید کہا ہے کہ  ’کسی بااثر شخص کو اس کی حیثیت کی وجہ سے رعایت نہیں دی جائے گی ، بااثر شخصیات ملوث پائی گئیں تو قانون کے یکساں نفاذ کو یقینی بنایا جائے گا۔‘

’خان محمد مری کے بچوں کی کوہلو میں موجودگی کی اطلاع پر پولیس ٹیم کوہلو پہنچ گئی ہے‘ (فوٹو: اردو نیوز)

ادھر کوہلو سے درجنوں افراد دو مختلف ریلیوں کی صورت میں تقریباً 100 کلومیٹر پیدل سفر کرتے ہوئے بارکھان پہنچے ہیں اور بچوں کی بازیابی کا مطالبہ کررہے ہیں۔
دوسری جانب سردار عبدالرحمان کھیتران کے بڑے بیٹے سردار زادہ انعام شاہ کھیتران نے اپنے والد پر الزام لگایا ہے کہ ’وہ بچوں کے اغوا اور تہرے قتل کے واقعے میں انہیں پھنسانے کی سازش کررہے ہیں۔‘
فیس بک پر اپنے ایک ویڈیو بیان میں انعام شاہ کا کہنا تھا کہ ’انہیں اطلاع ملی ہے کہ سردار عبدالرحمان کھیتران نے بچوں کو کوہلو کے علاقے کے ایک وڈیرے کے حوالے کر دیا ہے جہاں مغوی بچوں پر دباؤ ڈال کر ان سے اپنی مرضی کا بیان دلوانے کی کوشش کررہے ہیں۔‘
انعام شاہ نے ایک روز قبل خان محمد مری کے لاپتا بچوں کی تصاویر جاری کی تھیں۔ انعام شاہ کے بقول یہ تصاویر بچوں کی سردار عبدالرحمان کھیتران کے کوئٹہ اور بارکھان میں واقع گھروں میں موجودگی کے ناقابل تردید ثبوت ہیں۔
خان محمد مری کے دو چھوٹے بیٹے مجید مری اور ستار مری دو روز قبل تک کوئٹہ کی رہائش گاہ پر موجود تھے۔ حکومت کو سی سی ٹی وی فوٹیجز نکال کر ثبوت اکٹھے کرنے چاہییں۔

شیئر: