Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں پہلی بار ڈیجیٹل مردم شماری، ’قابل اعتبار ڈیٹا سامنے آئے گا‘

سیلف رجسٹریشن کے لیے پورٹل کا آغاز پچھلے ہفتے سے ہوا تھا (فوٹو: محکمہ شماریات)
اپنے دفتر میں لیپ ٹاپ پر اپنی فیملی کی تفصیلات ٹائپ کرتے ہوئے دو بچوں کے والد محمد ثاقب خاصے پرجوش دکھائی دے رہے تھے کیونکہ پاکستان میں پہلی بار مردم شماری کے لیے ڈیجیٹل طریقہ کار کا استعمال کیا جا رہا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس طریقے سے اندارج کے لیے گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں ایک تقریب کے دوران ایک پورٹل کا آغاز کیا گیا تھا۔
اختیاری سیلف رجسٹریشن کے بعد یکم مارچ سے ٹیبلٹس اور موبائل استعمال کرنے والے ایک لاکھ 20 ہزار سے زائد شمارکنندگان کی جانب سے ایک ماہ تک تفصیلات کا ذخیرہ کیا جائے گا۔ اس کے منتظمین کا کہنا ہے کہ اس سے عمل مزید درست، شفاف اور قابل اعتبار ہو جائے گا۔
امریکہ سے لے کر ایسٹونیا تک دنیا کے کئی ممالک میں آبادی کے حوالے سے اعدادوشمار ڈیجیٹل طور پر جمع کیے جاتے ہیں جس سے اخراجات میں بھی کمی ہوتی ہے اور غلطیوں کا احتمال بھی کم ہوتا ہے۔
پاکستان کی پارلیمان میں نشستوں کے ساتھ ساتھ بنیادی خدمات جیسے سکولوں، ہسپتالوں کے لیے فنڈز کی فراہمی آبادی کے اعدادوشمار پر ہی کی جاتی ہے تاہم کچھ گروپس کی جانب سے پچھلے اعدادوشمار پر شکوک کا اظہار کرتے ہوئے بعض الزامات بھی لگائے جاتے رہے ہیں۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس ڈیجیٹل گنتی میں ان تمام گروپس کو بھی شمار کیا جائے جن کو پچھلی بار چھوڑ دیا گیا تھا یا پھر جن کی درست گنتی نہیں ہوئی تھی جیسے خواجہ سرا اور اقلیتیں۔

بعض گروپس کی جانب سے 2017 کی مردم شماری کے اعدادوشمار پر اعتراضات اٹھائے گئے (فوٹو: اے ایف پی)

کراچی انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹرین سے وابستہ  مردم شماری کے ماہر اور معشیت دان عاصم بشیر خان کہتے ہیں کہ انہیں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی تھی کہ 2017 کی مردم شماری میں کراچی کے کچھ گنجان آباد علاقوں کی آبادی شامل نہیں کی گئی۔
ان کے مطابق ’لوگوں کی بڑی تعداد کو وہاں شمار نہیں کیا گیا جہاں وہ رہتے تھے بلکہ وہیں دکھایا گیا جہاں کے ان کے شناختی کارڈ ہیں۔ اس کا نتیجہ غلط اعدادوشمار کی صورت میں نکلا۔ جہاں انہوں نے وسائل استعمال کیے وہاں ان کی تعداد کم نظر آئی اور جہاں استعمال نہیں کیے وہاں پر زیادہ تعداد سامنے آئی۔‘
سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ 2017 میں ہونے والی مردم شماری میں پہلی بار ٹرانس جینڈرز کو شمار کیا گیا اور 20 کروڑ 80 لاکھ کی آباد میں صرف 10 ہزار چار سو 18 ٹرانس جینڈرز کا اندراج ہوا، بعدازاں اس گنتی کو 21 ہزار تک بڑھایا گیا تاہم یہ ایک کم تخمینہ ہے۔
ٹرانس جینڈرز کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے بلیو وینز کے بانی قمر نسیم کا کہنا ہے کہ خواجہ سراؤں نے ان اعدادوشمار کو مسترد کیا ہے۔
ان کے مطابق ’معذور افراد کو درست طور پر شمار نہیں کیا گیا۔‘
ڈیجیٹل گنتی کے حوالے سے حکام کا کہنا ہے کہ اس سے غلطیوں اور بے ضابطگیوں کی نشاندہی اور ان کو درست کرنا آسان ہو جائے گا۔

وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل مردم شماری سے شفاف نتائج سامنے آئیں گے (فوٹو: اے ایف پی)

وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال کا کہنا ہے کہ ’ڈیجیٹل مردم شماری صوبوں کے تعاون سے شفاقیت کو یقینی بنائے گی اور بااعتماد نتائج سامنے لائے گی۔‘
انہوں نے روئٹرز کو بتایا کہ ’ایک ماہ تک ایک لاکھ 26 ہزار شمارکنندگان سبز جیکٹس پہن کر محفوظ ٹیبلٹس کے ذریعے پاکستان کے ہر فرد کا شمار کریں گے۔‘
بیور آف سٹیٹسکس کے ترجمان محمد سرور گوندل کہتے  ہیں کہ ’اس کے فوائد میں قابل اعتماد ڈیٹا، درست مانیٹرنگ اور دور دراز علاقوں کی مکمل کوریج شامل ہے۔‘

شیئر: