Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغانستان میں سکول کی تعلیم سے محروم لڑکیاں مدرسہ جانے پر مجبور

طالبان کے سپریم لیڈر نے سینکڑوں کی تعداد میں مدرسے کھولنے کا حکم دیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد جہاں ایک طرف لڑکیوں کے سکول بند کر دیے گئے وہیں مدرسوں کی تعداد میں اضافے کے لیے بھرپور اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سکول کی تعلیم سے محروم لڑکیاں اب مدرسوں میں جانے پر مجبور ہو گئی ہیں۔
دارالحکومت کابل میں قائم ایک مدرسے کی 16 سالہ طالبہ فرح نے بتایا کہ سکول بند ہونے کے بعد وہ بہت زیادہ ذہنی دباؤ کا شکار ہو گئی تھیں۔
’پھر میرے گھر والوں نے فیصلہ کیا کہ مجھے کم از کم یہاں (مدرسہ) آنا چاہیے۔ واحد جگہ جو ہمارے لیے کُھلی ہوئی ہے وہ مدرسہ ہے۔‘
سائنس یا لٹریچر جیسے مضامین پڑھنے کے بجائے ان بچیوں کو صرف قران پڑھایا جاتا ہے۔ اور اگر کوئی طالبہ قرآنی آیات کا مطلب سمجھنا چاہے تو پھر اسے علیحدہ سے استاد کی خدمات حاصل کرنا پڑتی ہیں۔
اے ایف پی کی ٹیم نے کابل اور جنوبی شہر قندھار میں تین مدرسوں کا دورہ کیا جہاں اساتذہ نے انہیں بتایا کہ گزشتہ سال کے بعد سے لڑکیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
طالبان کی جانب سے لڑکیوں کے سیکنڈری سکولوں پر پابندی عائد کرنے کے ساتھ ہی فرح کا مستقبل بھی غیریقینی کا شکار ہو گیا تھا۔ فرح کا کہنا تھا کہ ’ہر کسی کے خواب دھرے کے دھرے رہ گئے۔‘
طالبان کے سپریم لیڈر ہبت اللہ اخونزادہ کے احکامات پر لڑکیوں کو سکول اور یونیورسٹی کی تعلیم سے تو محروم کیا گیا لیکن دوسری طرف سینکڑوں کی تعداد میں مدرسے کھولنے کا حکم جاری کیا۔
افغان عالم دین عبدل باری مدنی کے مطابق موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے جدید تعلیم کی ضرورت کو ترجیح دینی چاہیے۔ ’جدید تعلیم سے محروم رکھنا عوام سے غداری کے مترادف ہے۔‘
جنوبی صوبہ قندھار میں قائم ادارہ برائے اسلامی تعلیم کے سربراہ نعمت اللہ الفت نے بتایا کہ ’حکومت دن رات یہی سوچ رہی ہے کہ مدرسوں کی تعداد کیسے بڑھائی جائے۔ تاکہ نئی نسل کو اچھی تعلیم اور ٹریننگ کے ساتھ بہتر اخلاقیات سکھائی جا سکیں۔‘

شیئر: