Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جینڈرڈ ڈِس انفارمیشن: خواتین کی ’حوصلہ شکنی کا باعث‘

نیوزی لینڈ کی سابق وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن کے خلاف بھی آن لائن غلط معلومات پھیلائی گئیں (فوٹو: اے ایف پی)
یوکرین کی خاتون اول کی نیم برہنہ تصویر ہو یا پھر پاکستانی فیمنسٹوں کی ایسی ویڈیوز جس میں وہ کہہ کچھ رہے ہوتے ہیں اور سب ٹائٹلز کچھ اور چل رہے ہوتے ہیں۔ سلو موشن کے ذریعے خواتین سیاست دانوں کو نشے میں دکھانا ہو یا کچھ اور ہتھکنڈے، عوام کی نظر میں خواتین کوبُرا دکھانے کے لیے ایک طوفان بدتمیزی ہے جو جاری ہے جس کو محققین نے ’جینڈرڈ ڈس انفارمیشن‘ قرار دیا ہے۔
اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق خواتین کے خلاف ایسی آن لائن سرگرمیاں دکھائی دیتی ہیں جن میں ان کی صلاحیت کو محدود کر کے دکھایا جا رہا ہے جن کے لیے صنفی امتیاز اور زن بیزاری کا سہارا لیا جاتا ہے۔
اے ایف پی کے گلوبل فیکٹ چیکرز نے ایسی کئی مہموں کی نشاندہی کی ہے جن میں آن لائن خواتین کو نشانہ بنانے کے لیے غلط معلومات پھیلائی جاتی ہیں۔
پچھلے سال ایک ایسی تصویر تصویر کو فیس بک پر شئیر کیا گیا جس میں ایک بیچ میں ایک خاتون لیٹی ہوئی تھیں۔ تصویر کے ساتھ لکھا گیا کہ وہ یوکرین کی خاتون اول اولینا زیلنسکی ہیں۔ یہ تصویر دھڑا دھڑ شیئر ہوئی تاہم اے ایف پی نے تحقیق کر کے ثابت کیا ہے کہ وہ تصویر دراصل روس کی ٹیلی ویژن پریزنٹر کی ہے۔
اسی طرح سابق امریکی خاتون اول مشعل اوباما اوبامہ اور موجودہ فرانسیسی خاتون اول بریگیٹ میکخواں کو بھی آن لائن ایسی سرگرمیوں کا نشانہ بنایا گیا اور غلط طور پر یہ دعوٰی کیا گیا تھا کہ وہ مرد کے طور پر پیدا ہوئی تھیں۔ جس کے بعد ان کو آن لائن تمسخر کا نشانہ بھی بنایا گیا۔
نیوزی لینڈ کی سابق وزیراعظم جینسنڈا آرڈرن جنہوں نے جنوری میں استعفٰی دیا تھا، بھی ایسی مہم کا شکار ہوئیں اور ان کی جنس پر بھی سوال اٹھائے گئے۔
سینیئر ریسرچر ماریہ گائیووانہ سیسا، جو ایک غیر سرکاری ادارے سے وابستہ ہیں، نے پچھلے سال اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ ان خواتین کو خصوصی طور پر آن لائن نشانہ بنایا گیا جو اہم عہدوں پر تعینات تھیں۔

سابق امریکی خاتون اول مشعل اوباما کو بھی کردار کشی کی مہم کا سامنا رہا

اسی طرح 2020 میں اس وقت کی سپیکر ایوان نمائندگان نینسی پلوسی کی ایک ایسی ویڈیو شیئر کی گئی جس میں خصوصی ایفیکٹس کا استعمال کر کے ایسا دکھایا گیا جیسے وہ نشے میں ہیں۔
جنسی مساوات کی ماہر لوسینا دی میکو نے پچھلے سال شائع ہونے والی تحقیق میں لکھا تھا کہ ’بری نیت سے پھیلائی جانے والی غلط معلومات ان خواتین کو متاثر کرتی ہیں جن کو ہدف بنایا جاتا ہے۔‘
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ’غلط معلومات اکثر اوقات ’سیاسی تشدد، نفرت اور سیاست میں آنے والی نئی خواتین کے لیے حوصلہ شکنی کا باعث بنتی ہیں۔‘
اکثر اوقات سیاسی مخالفین کی جانب سے کی چلائی جانے والی مہموں میں خواتین کو ایسے دکھایا جاتا ہے کہ وہ بڑے عہدوں کے لیے موزوں نہیں۔
جب جرمنی کی موجودہ وزیر خارجہ انالینا بائرباک 2021 میں چانسلر کی دوڑ کی شامل تھیں، ان کو ایسی کئی کردار کشی کی سرگرمیوں کا سامنا رہا جن میں اس عہدے کے لیے ان کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے گئے تھے اور ایسی نیم برہنہ تصویریں بھی شیئر کی گئیں جن کے بارے میں دعوٰی کیا کہ وہ ان کی ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ خواتین کے خلاف آن لائن مہم کا مقصد انہیں حقوق سے محروم رکھنا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

زیادہ تر محققین نے خدشے کا اظہار کیا ہے کہ صنفی بنیاد پر غلط معلومات کا پھیلاؤ ایک ایک ایسا خطرہ ہے جس سے روس جیسے ممالک بین الاقوامی طور پر اپنے اثرورسوخ کے لیے غلط فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
ڈی میکو کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے ’جب آمرانہ لیڈر طاقت میں ہوتے ہیں تو اکثر اوقات ریاست کی جانب سے ایسی سے ایسی سرگرمیاں کی جاتی ہیں جس کا مقصد خواتین کی حوصلہ شکنی اور حقوق دبانا ہوتا ہے۔‘
2021 میں مصری سپورٹس شوٹر الزاہرا شعبان کے حوالے سے ایسی پوسٹس پھیلائی گئیں کہ ان کو مقابلے سے باہر کر دیا گیا ہے کیونکہ انہوں نے ریفری کو نشانہ بنا لیا تھا۔
جس کے بعد خواتین کی صلاحیت کے حوالے سے ایک منفی بحث چل نکلی۔

امریکہ کے قانون سازوں نے فیس بک سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ خواتین کے خلاف مہم کا تدارک کرے (فوٹو: اے ایف پی)

اسی طرح پچھلے سال امریکہ کا ایک جہاز سمندر میں گر کر تباہ ہوا تھا جس کے بعد یہ بات پھیلائی گئی کہ اس کو ایک خاتون اُڑا رہی تھیں حالانکہ اس کا پائلٹ مرد تھا۔
2020 میں امریکی قانون سازوں سمیت کئی دیگر حکام نے فیس بک کو اس حوالے سے مطلع کیا تھا کہ اس کو خواتین کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ ’فیس بک نے تسلیم کیا ہے کہ خواتین کے حوالے سے غلط معلومات پھیلانا ایک سنجیدہ مسئلہ ہے اور وعدہ کیا ہے کہ وہ اس ضمن میں اقدامات کرے گا۔‘

شیئر: