Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

الیکشن التوا کیس: وزارت دفاع نے رپورٹ جمع کرا دی، سپریم کورٹ کا فیصلہ آج

سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات میں تاخیر کے معاملے پر کیس کی سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کر لیا تھا جو آج منگل کو سنایا جائے گا۔ 
پیر کو چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات میں التوا کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کی تھی۔
وزارت دفاع نے سپریم کورٹ کے حکم پر رپورٹ سربمہر لفافے میں منگل کی صبح جمع کروا دی ہے۔ 
رپورٹ میں صوبہ پنجاب اور خیبر پختنوخوا میں انتخابات کے دوران فورسز کی تعیناتی کے حوالے سے تفصیلات شامل ہیں۔
گزشتہ روز سماعت سے قبل ہی اٹارنی جنرل منصور اعوان کی جانب سے تحریری جواب عدالت میں جمع کرا دیا گیا تھا جس میں وفاقی حکومت نے کراتے انتخابات سے متعلق پی ٹی آئی کی درخواست مسترد کرنے کی استدعا کر دی۔
حکومت نے موقف اختیار کیا کہ یکم مارچ کا سپریم کورٹ کا فیصلہ اکثریت سے دیا گیا، تین رکنی بینچ متبادل کے طور پر تحریک انصاف کی درخواست پر سماعت نہ کرے۔
حکومت نے تحریری جواب میں کہا ’جسٹس قاضی فائز عیسی کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی درخواست مؤخر کی جائے۔ سپریم کورٹ کے جو ججز الیکشن کیس کو سن چکے ہیں۔ انہیں نکال کر باقی ججز پر مشتمل بینچ بنایا جائے، پہلے راؤنڈ میں دیا گیا الیکشن کا فیصلہ چار تین کی اکثریت سے دیا گیا۔‘
سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سوال اٹھایا گیا تھا الیکشن کمیشن 8 اکتوبر کی تاریخ کیسے دے سکتا ہے؟ قانون کسی کو الیکشن ملتوی کرنے کا اختیار نہیں دیتا، عدالت ہی الیکشن کی تاریخ آگے بڑھا سکتی ہے۔
سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ حمود الزمان بھی عدالت میں پیش ہوئے تھے۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ’پنجاب میں سکیورٹی حالات سنگین ہیں۔ ریزور فورس موجود ہے جسے مخصوص حالات میں بلایا جاتا ہے۔ ریزرو فورس کی طلبی کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔‘

حکومت نے عدالت سے فل کورٹ بنانے کی استدعا کی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

عدالت نے سیکریٹری دفاع کو آج منگل کو تحریری رپورٹ پیش کرنے کا کہا تھا۔
عمران خان کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ سکیورٹی اہلکار صرف ایک دن کے لیے چاہییں۔ سکیورٹی کا ایشو تو ہمیشہ رہے گا جبکہ آئینی ضرورت 90 دن کی ہے، ریٹائرڈ لوگوں کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں۔
عدلت کے حکم پر سیکریٹری خزانہ کی رپورٹ عدالت میں پیش کر دی گئی تھی۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سیکریٹری خزانہ کی رپورٹ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے تناظر میں ہے۔
پی ٹی آئی رہنما اسد عمر نے بھی روسٹرم پر آ کر بریفنگ دی اور سوال اٹھایا کہ ’کیسے ممکن ہے 700 ارب کے بجٹ سے 21 ارب روپے نہ نکالے جا سکتے ہوں، آئینی تقاضا اہم ہے یا سڑکیں بنانا؟ اس سے بڑا کوئی مذاق نہیں ہو سکتا۔‘
الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر جج پر اعتراض ہو تو وہ بینچ سے الگ ہو جاتے ہیں۔۔۔۔عدالت پر عدم اعتماد نہیں ہے لیکن انصاف ہوتا نظر آنا چاہیے، عدالت کا ایک فیصلہ پہلے ہی تنازع کا شکار ہے اور فی الحال انصاف ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔‘
سماعت کے آخر پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’وزارت دفاع اور وزارت خزانہ کی وجوہات بھی دیکھیں گے۔ عوام کو مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتے۔ الیکشن میں بدمزگی ہوئی تو ملبہ عدالت پر آئے گا۔ سیاسی مذاکرات کا آپشن اسی لیے دیا گیا تھا۔‘

شیئر: