Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

الیکشن کمیشن کے معطل کیے گئے فیصلے میں کیا تھا؟

صدر عارف علوی نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ آئین اور قانون 90 دن سے زائد کی تاخیر کی اجازت نہیں دیتا (فائل فوٹو: اے پی پی)
سپریم کورٹ آف پاکستان نے آج (منگل کو) الیکشن کمیشن کے انتخابات کو ملتوی کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے صوبہ پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کروانے کا حکم دیا ہے۔ 
سپریم کورٹ کی طرف سے الیکشن کمیشن کا جو فیصلہ معطل کیا گیا ہے، اس میں کہا گیا تھا کہ ’قانون نافذ کرنے والے اداروں، وزارت خزانہ، وزارت دفاع، وزارت داخلہ اور چیف سیکریٹری پنجاب کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹس کی روشنی میں کمیشن اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ الیکشن کا شفاف، منصفانہ، دیانتداری سے، پرامن اور قانون اور آئین کے مطابق انعقاد ممکن نہیں‘۔ 
 یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لیے صدر نے 30 اپریل کی تاریخ مقرر کی تھی جس کے بعد الیکشن شیڈول بھی جاری کیا گیا تھا۔ 
خیبر پختونخوا میں انتخابات کے انعقاد کے متعلق الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ ’خیبر پختونخوا اسمبلی 18 جنوری کو تحلیل ہوئی تھی۔ وہاں انتخابات کے لیے پولنگ 8 اکتوبر کو ہو گی۔‘ 
الیکشن کمیشن نے اپنے حکم نامے میں کہا تھا کہ’ آٹھ اکتوبر کی تاریخ صوبے کے گورنر کی جانب سے دی گئی ہے۔ الیکشن شیڈول کا اعلان وقت کے مطابق کر دیا جائے گا۔‘ 
سپریم کورٹ نے خیبر پختونخوا اسمبلی کے الیکشن کی تاریخ متعین کرنے کا اختیار گورنر کو دیا تھا۔

صدر عارف علوی کا اعلان

قبل ازیں پاکستان کے صدر عارف علوی نے الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 57 ایک کے تحت 9 اپریل بروز اتوار پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کے لیے انتخابات کا اعلان کیا تھا۔ 
ایوان صدر کی جانب سے جاری بیان کے مطابق صدر نے کہا تھا  کہ الیکشن کمیشن ایکٹ کے سیکشن 57 دو کے تحت الیکشن کا پروگرام جاری کرے۔ 
پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے مدت مکمل ہونے سے سے قبل پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کر دی تھیں۔ 
صدر عارف علوی کی جانب سے یہ اعلان الیکشن کمیشن کو انتخابات سے متعلق مشاورت کی دعوت دینے کے بعد آیا تھا جس میں شرکت سے الیکشن کمیشن نے معذرت کی تھی۔ 
ایوان صدر کے پریس ونگ کے بیان کے مطابق صدر عارف کا کہنا تھا کہ انہوں نے آئین کے تحفظ اور دفاع کا حلف لیا ہے۔

الیکشن کمیشن نے کہا تھا’ آٹھ اکتوبر کی تاریخ صوبے کے گورنر کی جانب سے دی گئی ہے۔‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’چونکہ کسی بھی عدالتی فورم کی جانب سے کوئی حکم امتناع نہیں، لہٰذا، سیکشن 57  ایک کے تحت صدر اختیار کے استعمال میں کوئی رکاوٹ نہیں۔‘ 
صدر نے مزید کہا تھا  کہ آئین اور قانون 90 دن سے زائد کی تاخیر کی اجازت نہیں دیتا۔ 
ان کا کہنا تھا کہ ’پنجاب اور خیبرپختونخوا کے گورنر صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 90 دن کے اندر اندر الیکشن کی تاریخ مقرر کرنے کی اپنی آئینی ذمہ داریاں ادا نہیں کر رہے۔‘ 
صدر عارف علوی نے مزید کہا تھا کہ الیکشن کمیشن بھی پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں کے انتخابات کرانے کی اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کر رہا۔ 
انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن بھی پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں کے انتخابات کرانے کی اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کر رہا۔ 
صدر عارف علوی کے مطابق دونوں آئینی دفاتر ایک دوسرے کی کورٹ میں گیند پھینک رہے ہیں۔ 
’دونوں آئینی دفاتر اردو کی پرانی مثل ’پہلے آپ نہیں، پہلے آپ‘ کی طرح گیند ایک دوسرے کے کورٹ میں ڈال رہے ہیں۔ اس طرزِعمل سے تاخیر اور آئینی شقوں کی خلاف ورزی کا سنگین خطرہ پیدا ہو رہا ہے۔‘

صدر پاکستان کی جانب سے الیکشن کمیشن کو دو خطوط ارسال کیے گئے تھے  (فائل فوٹو: اے پی پی)

بیان میں صدر کے حوالے سے کہا گیا تھا  کہ اسمبلیوں کے عام انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے لیے الیکشن کمیشن سے مشاورت کا سنجیدہ عمل شروع کیا گیا تاہم الیکشن کمیشن نے اس موضوع پر ہونے والے اجلاس میں شرکت سے معذرت کی۔ 

الیکشن کمیشن کی ایوانِ صدر کے اجلاس میں عدم شرکت

الیکشن کمیشن نے ایوانِ صدر میں انتخابات کے حوالے سے منعقد ہونے والے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ 
الیکشن کمیشن نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’ہم نے اپنا تفصیلی موقف گزشتہ روز بذریعہ مراسلہ صدر مملکت کو دے دیا ہے۔‘ 
صدر پاکستان کی جانب سے الیکشن کمیشن کو دو خطوط ارسال کیے گئے تھے۔ 
ایک میں صدر عارف علوی نے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن پنجاب اور خیبرپختونخوا میں عام انتخابات کے اعلان کرے اور دوسرے خط میں عام انتخابات کے حوالے سے ہنگامی اجلاس میں چیف الیکشن کمشنر کو شامل ہونے کی دعوت دی تھی۔ 

شیئر: