Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سپریم کورٹ کے رجسٹرار کا عہدہ کتنا طاقتور ہوتا ہے؟

وفاقی کابینہ نے رجسٹرار سپریم کورٹ کی خدمات واپس لینے کا فیصلہ کیا تھا (فوٹو: وزیراعظم آفس)
پاکستان کی وفاقی حکومت اور سپریم کورٹ کے درمیان رسہ کشی جاری ہے۔ یہ تناؤ اُس وقت مزید بڑھ گیا جب وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے رجسٹرار عشرت علی کی خدمات واپس لیں اور انہیں کیبنٹ ڈویژن رپورٹ کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے او ایس ڈی بنا دیا۔
یہ اقدام رجسٹرار سپریم کورٹ کی جانب سے چیف جسٹس پاکستان کی ہدایت پر جاری کیے گئے سرکلر کے ردعمل میں اُٹھایا گیا تھا۔ 

سرکلر میں کیا تھا؟

جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اکثریتی فیصلے میں چیف جسٹس سمیت دیگر ججز کو سپریم کورٹ میں حال ہی میں لیے گئے تمام سوموٹو نوٹسز کی سماعت سے روک دیا تھا۔
اس فیصلے کے اثرات ختم کرنے کے لیے رجسٹرار سپریم کورٹ نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی ہدایت پر ایک سرکلر جاری کیا تھا جس کے ردعمل میں وفاقی حکومت نے ایک انتظامی حکم کے ذریعے رجسٹرار سپریم کورٹ کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا۔
منگل کو رجسٹرار عشرت علی اپنے دفتر میں آئے اور اپنے امور کی انجام دہی میں مصروف رہے۔  پاکستان کے رائج قانون کے مطابق عدلیہ (چاہے وہ سپریم کورٹ ہو یا کسی بھی صوبے کی ہائی کورٹ) میں رجسٹرار ایک کلیدی عہدہ ہوتا ہے جس کے ذمّے عدالتوں کے ایگزیکٹو معاملات چلانا ہوتا ہے۔

رجسٹرار کا عہدہ کتنا اہم ہے؟

رجسٹرار کی آئینی حیثیت اور اُس کا عہدہ کتنا طاقت ور ہوتا ہے یہ جاننے کے لیے اُردو نیوز نے لاہور ہائی کورٹ کے سابق رجسٹرار خورشید انور سے بات چیت کی ہے۔
خورشید انور سمجھتے ہیں کہ ’رجسٹرار کا عہدہ انتظامی حوالے سے کسی بھی ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کا سب سے طاقتور ایگزیکٹو عہدہ ہوتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک صوبے کا چیف سیکریٹری ہو۔‘
انہوں نے بتایا کہ ہائی کورٹ کا رجسٹرار پورے صوبے کی ماتحت عدلیہ کا بھی ایک طرح کا چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے۔ ’اس کے پاس وہ تمام اختیار ہوتے ہیں جو رولز میں درج ہیں۔ تقرّر وتبادلے ہوں یا کسی جج کے حکم پر عمل درآمد کروانا ہو یہ سب رجسٹرار کرتا ہے۔ اس کے پاس پیسوں کے اجرا اور ہر طرح کے اخراجات کی بھی آزادی ہوتی ہے۔‘
خورشید انور نے بتایا کہ ’تمام عدالتی اسٹیبپلشمنٹ رجسٹرار کو جواب دہ ہوتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ سے مراد یہاں جوڈیشل افسران ہیں جو ایک نائب قاصد سے لے کر اسسٹنٹ رجسٹرار، ڈپٹی اور پھر ایڈیشنل رجسٹرار پر مشتمل ہوتی ہے۔‘
تو کیا کوئی رجسٹرار ہر جج کے ہر حکم کو ماننے کا پابند ہوتا ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے سابق رجسٹرار کا کہنا تھا کہ ’یہاں بھی وہی اصول کاربند ہے جو کسی بھی سرکاری افسر کے لیے ہوتا ہے۔ یعنی ہر قانونی اور جائز حکم پر عمل درآمد کرنا سرکاری افسر کی ڈیوٹی میں شامل ہے۔‘

جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے چیف جسٹس سمیت دیگر ججز کو سوموٹو نوٹسز کی سماعت سے روک دیا تھا (فوٹو: سپریم کورٹ)

عام طور پر ہائی کورٹس میں جوڈیشل افسران کو ہی رجسٹرار تعینات کیا جاتا ہے، سیشن جج کو رجسٹرار ہائی کورٹ کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے۔ البتہ سپریم کورٹ میں بعض اوقات سول سروس سے افسران کو ڈیپوٹیشن پر لیا جاتا ہے۔ جیسے موجود رجسٹرار سپریم کورٹ عشرت علی20 ویں گریڈ کے سول سروس کے افسر ہیں۔
لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق سیکریٹری رانا اسد اللہ کہتے ہیں کہ ’رجسٹرار کا عہدہ ایگزیکٹو تو ہوتا ہے لیکن اس کی حیثیت محض ایک ڈاکخانے کے طور پر ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں جو پریکٹس ہے اس میں رجسٹرار اپنے طور پر کوئی فیصلہ نہیں کرتا۔ اس کا کام صرف ججز کے فیصلوں پر عمل درآمد کروانا اور انتظامی امور کو دیکھنا ہوتا ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’ہمارا ہمیشہ سے مطالبہ رہا ہے کہ سول سروس سے افسران کو بطور رجسٹرار لینے کے بجائے جوڈیشل افسران کو تعینات کیا جائے تاکہ سول بیوروکریسی اور عدلیہ کے مابین ایسی صورت کبھی بھی نہ ہو۔‘
سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے رولز کے مطابق رجسٹرار کی تعیناتی متعلقہ چیف جسٹس کی صوابدید ہوتی ہے اگر وہ جوڈیشل سروس سے باہر کا افسر لینا چاہیں تو بھی اس ضمن میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ہے۔ 

شیئر: