Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قومی سلامتی کمیٹی کی دہشت گردی کے خلاف ’جامع آپریشن‘ شروع کرنے کی منظوری

اعلامیے کے مطابق ’ٹی ٹی پی کے خطرناک دہشت گردوں کو اعتماد سازی کے نام پر جیلوں سے رہا بھی کر دیا گیا۔‘ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)
قومی سلامتی کمیٹی نے دہشت گردی کی حالیہ لہر کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ نرم گوشہ اور عدم سوچ بچار پر مبنی پالیسی کا نتیجہ قرار دیا جو کہ عوامی توقعات اور خواہشات کے بالکل منافی ہے۔
جمعے کو قومی سلامتی کمیٹی کا 41 واں اجلاس وزیراعظم ہاﺅس میں منعقد ہوا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اجلاس کی صدارت کی جس میں وفاقی وزرا، چئیرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی، سروسز چیفس اور متعلقہ اداروں کے اعلٰی حکام نے شرکت کی۔
اجلاس کے اختتام پر جاری کیے گئے اعلامیے کے مطابق ’ٹی ٹی پی کے ساتھ نرم گوشہ اور عدم سوچ بچار پر مبنی پالیسی کے نتیجے میں دہشت گردوں کو بلا رکاوٹ واپس آنے کی ناصرف اجازت دی گئی بلکہ ٹی ٹی پی کے خطرناک دہشت گردوں کو اعتماد سازی کے نام پر جیلوں سے رہا بھی کر دیا گیا۔‘
’واپس آنے والے اِن خطرناک دہشت گردوں اور افغانستان میں بڑی تعداد میں موجود مختلف دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے مدد ملنے کے نتیجے میں ملک میں امن و استحکام منتشر ہوا جو بے شمار قربانیوں اور مسلسل کاوشوں کا ثمر تھا۔‘
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اجلاس نے جامع قومی سلامتی پر زور دیا جس میں عوام کے ریلیف کو مرکزی حیثیت قرار دیا گیا اور فورم کو بتایا گیا کہ حکومت اس ضمن میں اقدامات کر رہی ہے۔
’اجلاس میں ہمہ جہت جامع آپریشن شروع کرنے کی منظوری دی گئی۔ پاکستان سے ہر طرح اور ہر قسم کی دہشت گردی کے ناسُور کے خاتمے کے لیے اِس مجموعی، ہمہ جہت اور جامع آپریشن میں سیاسی، سفارتی سکیورٹی، معاشی اور سماجی سطح پر کوششیں بھی شامل ہوں گی۔ اس سلسلے میں اعلٰی سطح کی ایک کمیٹی تشکیل بھی دی گئی جو دو ہفتوں میں اس پر عمل درآمد اور اس کی حدود و قیود سے متعلق سفارشات پیش کرے گی۔‘
اعلامیے کے مطابق اجلاس میں مقتدر انٹیلی جنس ایجنسی کے کامیاب آپریشن کوبہت سراہا گیا جس میں انہوں نے انتہائی مطلوب دہشت گرد گلزار امام عرف شمبے کو گرفتار کیا جو دہشت گرد بلوچ نیشنل آرمی اور ’براس‘ کے بانی و رہنما اور ایک عرصے سے مختلف دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث تھا۔
کمیٹی نے بڑھتی ہوئی نفرت انگیزی معاشرے میں تقسیم اور در پردہ اہداف کی آڑ میں، ’ریاستی اداروں اور ان کی قیادت کے خلاف بیرونی سپانسرڈ زہریلا پراپیگنڈا سوشل میڈیا پرپھیلانے کی کوششوں کی شدید مذمت کی اور کہا کہ اس سے قومی سلامتی متاثر ہوتی ہے۔‘

شیئر: