Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صدر علوی کا آئین سے زیادہ جھکاؤ عمران خان کی طرف ہے: وزیراعظم

صدر نے بِل واپس بھیجتے ہوئے کہا ہے کہ ’بادی النظر میں یہ بل پارلیمنٹ کے اختیار سے باہر ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے صدر عارف علوی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’ان کی جانب سے قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظورشدہ سپریم کورٹ کے بل پر دستخط نہ کرنا بدقسمتی اور صدر کے عہدے کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف ہے۔‘
سنیچر کو ایک ٹویٹ میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ’صدر عارف علوی نے اپنے رویے سے اپنے دفتر کی ساکھ کو ٹھیس پہنچائی ہے اور وہ پی ٹی آئی کے کارکن کی طرح پیش آرہے ہیں جو کہ آئین اور اپنے منصب کے تقاضوں سے زیادہ عمران نیازی کے سامنے جھکے ہوئے ہیں۔
واضح رہے کہ سنیچر کی صبح ایوانِ صدر سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ ’صدر عارف علوی نے سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بِل 2023 آئین کے آرٹیکل 75 کے تحت نظرثانی کے لیے پارلیمنٹ کو واپس بھجوا دیا ہے۔‘
بیان کے مطابق صدر عارف علوی نے بِل واپس بھیجتے ہوئے کہا ہے کہ ’بادی النظر میں یہ بل پارلیمنٹ کے اختیار سے باہر ہے۔‘
’بل قانونی طور پر مصنوعی اور ناکافی ہونے پر عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ میرے خیال میں اس بِل کو درستی، جانچ پڑتال اور دوبارہ غور کرنے کے لیے واپس کرنا مناسب ہے۔
صدر مملکت کا کہنا تھا کہ آئین سپریم کورٹ کو اپیل، ایڈوائزری، ریویو اور ابتدائی اختیار سماعت سے نوازتا ہے، مجوزہ بِل آرٹیکل 184 تین، عدالت کے ابتدائی اختیار سماعت  سے متعلق ہے۔
صدر کے مطابق مجوزہ بل کا مقصد ابتدائی اختیار سماعت استعمال کرنے اور اپیل کرنے کا طریقہ فراہم کرنا ہے۔ ’یہ خیال قابل تعریف ہو سکتا ہے مگر کیا اس مقصد کو آئین کی دفعات میں ترمیم کے بغیر حاصل کیا جا سکتا ہے؟
عارف علوی کا کہنا تھا کہ تسلیم شدہ قانون تو یہ ہے کہ آئینی دفعات میں ایک عام قانون سازی کے ذریعے ترمیم نہیں کی جا سکتی۔ ’آئین ایک اعلٰی قانون ہے، قوانین کا باپ ہے۔
صدر مملکت نے کہا کہ جانچ شدہ قواعد میں چھیڑچھاڑ عدالت کی اندرونی کارروائی، خود مختاری اور آزادی میں مداخلت کے مترادف ہو سکتی ہے۔ ’ریاست کے تین ستونوں کے دائرہ اختیار، طاقت اور کردار کی وضاحت آئین نے ہی کی ہے۔‘

شیئر: