Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

1971 میں پاکستان ٹوٹنے کی بڑی وجہ غلط عدالتی فیصلہ تھا: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’اگر کوئی فیصلہ غلط ہے تو وہ غلط ہی رہے گا چاہے سب جج فیصلہ کر لیں۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
سپریم کورٹ کے جج قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ’1971 میں پاکستان اچانک نہی ٹوٹا تھا بلکہ اس کے ٹوٹنے کی بڑی وجہ عدالت کا غلط فیصلہ تھا۔‘
بدھ کو اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی میں ہونے والی تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’فیڈرل کورٹ میں جسٹس منیر نے پاکستان توڑنے کا بیج بویا۔ جو زہریلا بیج بویا گیا وہ پروان چڑھا اور اس نے ملک کے دو ٹکڑے کر دیے۔‘
قاضی فائز نے کہا کہ ’آئین پاکستان پر سات مرتبہ وار کیے گئے لیکن اس کا حوصلہ ہے کہ وہ آج بھی موجود ہے۔ یہ آئین آپ (عوام) کے لیے بھی ہے۔ میں نے اس کے دفاع کا حلف اٹھایا ہے۔‘
سوموٹو کے اختیار کے حوالے سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ان کی رائے میں آئین کی شق 184/3 کے تحت از خود نوٹس کا اختیار پوری سپریم کورٹ کو ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’سوموٹو کا لفظ آئین میں نہیں ہے۔ میری رائے ہے کہ آئین میں 184/3 کی جو بات ہوتی ہے تو یہ سپریم کورٹ کو اختیار دیتی ہے۔‘
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ’میری رائے میں آئین یہ نہیں کہتا کہ چیف جسٹس سوموٹو لے سکتا ہے۔ 184/3 کا مطلب ہے تمام سپریم کورٹ کے جج۔‘
’میری رائے ہے کہ آئین میں 184/3 کی جو بات ہوتی ہے تو یہ سپریم کورٹ کو اختیار دیتی ہے کہ جب کوئی مفاد عامہ کا کوئی کیس ہو تو اسے پورا کرنا لازمی ہے۔ بنیادی حقوق کے لیے کام کیا جائے۔‘
سپریم کورٹ کے جج نے کہا کہ ’ 184/3کے تحت اپیل کا حق نہیں ہے لہذا پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر کوئی فیصلہ غلط ہے تو وہ غلط ہی رہے گا چاہے سب ججز فیصلہ کر لیں۔‘

شیئر: