Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آسٹریلیا کا امیگریشن نظام میں تبدیلی کا اعلان، ’پوائنٹس ٹیسٹ‘ میں ترمیم کی جائے گی‘

آسٹریلوی وزیر داخلہ نے کہا کہ ’ہمارا امیگریشن کا نظام ٹُوٹ پُھوٹ چکا ہے‘ (فائل فوٹو: کلیئر اونیل ٹوئٹر)
آسٹریلیا نے جمعرات کو اپنے امیگریشن کے نظام میں ترمیم کرنے کی تجویز پیش کی ہے تاکہ ملک میں انتہائی ہنرمند کارکنوں کی آمد کا سلسلہ تیزی کیا جائے اور مستقل رہائش کی راہ ہموار کی جائے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق وفاق میں موجود لیبر حکومت نے کہا ہے کہ ’ہنرمند تارکین وطن کا انتخاب کرنے والے موجودہ نظام ’پوائنٹس ٹیسٹ‘ میں ترمیم کی جائے گی۔‘
’اس کا مقصد یہ ہے کہ ایسے افراد کی شناخت کی جائے جن کی مہارت آسٹریلوی معیشت کو آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔‘
آسٹریلوی وزیر داخلہ کلیئر اونیل نے نیشنل پریس کلب میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارا امیگریشن کا نظام ٹُوٹ پُھوٹ چکا ہے۔‘
’یہ ہمارے کاروبار کو ناکام بنا رہا ہے، یہ تارکین وطن کو بھی ناکام کر رہا ہے، اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ آسٹریلینز کو بھی ناکام بنا رہا ہے۔ یہ مزید جاری نہیں رہ سکتا۔‘
آسٹریلوی حکومت نے گذشتہ برس ستمبر میں اعلان کیا تھا کہ رواں مالی سال میں مستقل امیگریشن کی تعداد 35 ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ 95 ہزار تک کر دی جائے گی۔
 یہ اعلان ایسے وقت میں کیا گیا جب آسٹریلیا ہنرمندوں اور مزدوروں کی کمی سے دوچار ہے۔
وزیر داخلہ کلائر او نیل نے یہ اعلان مقامی حکومتوں، ٹریڈ یونین، کاروبار اور صنعتوں کے 140 نمائندوں کے دو روزہ سربراہی اجلاس کے دوران خطاب کرتے ہوئے کیا تھا۔

آسٹریلوی حکومت نے مستقل امیگریشن کی تعداد 35 ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ 95 ہزار تک کرنے کا اعلان کر رکھا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ان کے مطابق ’اٗندہ سال 30 جون 2023 تک ملک میں ہنرمندوں کو لایا جائے گا تاکہ وبائی امراض سے پیدا ہونے والی مہارتوں کی کمی کو دور کیا جا سکے۔‘
وزیر داخلہ نے بتایا کہ آسٹریلیا میں نرسنگ کے شعبے میں گذشتہ دو برسوں کے دوران کارکن مسلسل دو سے تین شفٹ میں کام کر رہے ہیں۔‘
’ایئرپورٹس پر سٹاف نہ ہونے کے باعث فلائٹس منسوخ کرنا پڑتی ہیں جبکہ پھل درختوں پر خراب ہو رہے ہیں کیونکہ اُتارنے کے لیے افرادی قوت میسر نہیں۔‘
وزیر داخلہ نے کہا کہ ’ہماری پہلی ترجیح آسٹریلوی شہریوں کو ملازمتیں دینا ہے اور اسی وجہ سے اس کانفرنس کی توجہ خواتین اور معاشرے کے نظرانداز طبقات کو ٹریننگ دینے کی گفتگو پر رہی۔‘
’کورونا کی وبا کے اثرات اس قدر زیادہ ہیں کہ یہ سب کرنے کے باوجود ہیں ہزاروں ورکرز کی کمی کا سامنا ہوگا، کم از کم مختصر مدت کے لیے تو ایسا ہی ہے۔‘

شیئر: