Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کے معاملے پر امریکہ خاموش کیوں؟ 

ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو 23 مئی 2011 کو گرفتار کیا گیا تھا (فائل فوٹو: اے ایف پی)
ایبٹ آباد میں 2 مئی 2011 کو اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی آپریشن کے بعد پاکستان میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کو گرفتار کیا گیا تھا۔
ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو 23 مئی 2011 کو گرفتار کیا گیا تھا۔ بعدازاں انہیں قبائلی قانون ایف سی آر کے تحت شدت پسند گروہ کو فنڈنگ فراہم کرنے کے جُرم میں 33 سال کی قید سنائی گئی۔ 
فاٹا ٹریبیونل کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد شکیل آفریدی کو پشاور سینٹرل جیل میں رکھا گیا، پھر سکیورٹی خدشات کے باعث انہیں اڈیالہ جیل راولپنڈی اور بعد میں ساہیوال کی ہائی سکیورٹی جیل بھیج دیا گیا جہاں وہ آج بھی قید ہیں۔ 
شکیل آفریدی رہائی کیس میں کیا پیش رفت ہوئی؟
شکیل آفریدی کے وکیل ایڈووکیٹ قمر ندیم آفریدی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’رہائی کیس میں عدالت کی دلچسپی ہے اور نہ امریکہ چاہتا ہے کہ رہائی ہو، اس معاملے پر امریکہ کی جانب سے مکمل خاموشی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’آٹھ برس بعد پشاور ہائی کورٹ میں شکیل آفریدی کیس کی سماعت ہوئی مگر اس کیس کو ناقابل سماعت قرار دے کر اپیل خارج کردی گئی۔ 
ایڈووکیٹ قمر ندیم کے مطابق ’شکیل آفریدی کی رہائی کے لیے دوبارہ فاٹا ٹریبیونل قائم کرنے کا فیصلہ دیا گیا کیونکہ شکیل آفریدی کو سزا ایف سی آر قانون کے تحت ہوئی تھی۔ 
انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ایف سی آر ختم اور فاٹا خیبرپختونخوا میں ضم ہو چکا ہے، اب مجھے سمجھ نہیں آتی کہ دوبارہ فاٹا ٹریبیونل کیسے قائم ہوگا؟‘
شکیل آفریدی کے وکیل نے مزید کہا کہ ’ساہیوال ہائی سکیورٹی جیل بھیجنے کے بعد مجھے شکیل آفریدی سے صرف دو مرتبہ ملنے دیا گیا اور اس کے بعد مجھے ملاقات کرنے سے منع کر دیا گیا۔‘

امریکی فوج کی جانب سے ایبٹ آباد میں 2 مئی 2011 کو اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کیا گیا تھا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا تھا کہ ’شکیل آفریدی سے ان کی فیملی کو ایک ماہ کت دوران ایک بار ملاقات کی اجازت ملتی ہے اور اکثر ان کے توسط سے مجھے پیغام مل جاتا ہے۔‘
ایڈووکیٹ قمر ندیم آفریدی نے کہا کہ ’موجودہ صورت حال میں شکیل آفریدی کی رہائی ناممکن لگ رہی ہے۔‘
ڈاکٹر شکیل آفریدی امریکی حکومت کے لیے اہمیت کے حامل کیوں؟
ڈاکٹر شکیل آفریدی امریکہ کے لیے اس وقت اہم ثابت ہوئے جب انہوں نے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی رہائش گاہ کی نشاندہی کی جس کے بعد 2 مئی 2011 کو اسامہ بن لادن کے خلاف فوجی آپریشن کیا گیا۔
 امریکی فوجی آپریشن کے چند ہی ہفتوں بعد پاکستانی حکام نے شکیل آفریدی کو گرفتار کر لیا تھا مگر اُن پر الزام عسکریت پسند گروہ کی مالی معاونت کا لگایا گیا اور جرم ثابت ہونے پر 33 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
دو طرفہ مذاکرات یا ڈیل کے بعد ہی یہ مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے: تجزیہ کار محمود جان بابر
سینیئر تجزیہ کار محمود جان بابر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’2 مئی 2011 کا واقعہ پاکستان کے لیے ایک دھچکہ تھا کیونکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان ہمیشہ سے امریکہ کا اتحادی رہا ہے۔‘

ایڈووکیٹ قمر ندیم آفریدی کے مطابق ’شکیل آفریدی کی رہائی میں عدالت کی دلچسپی ہے اور نہ امریکہ کی‘ (فائل فوٹو: اردو نیوز)

’امریکہ کی اس کارروائی نے اعتماد کو خراب کیا، تاہم یہ ابھی تک ثابت نہیں ہوسکا کہ آیا ایبٹ آباد کے اس مکان میں اسامہ بن لادن موجود تھے بھی یا نہیں، اس دعوے پر بھی کئی سوالات اٹھتے ہیں۔
محمود جان بابر کے مطابق ’شکیل آفریدی کی رہائی عدالت کے ذریعے ممکن نہیں ہے کیونکہ ماضی میں کئی ایسے کیسز عدالت سے نہیں بلکہ تعلقات کی بنیاد پر حل ہوئے۔‘
’شکیل آفریدی نے سی آئی اے کی مدد کرکے پاکستان کے اداروں میں بداعتمادی پیدا کی جس کے باعث پوری دنیا میں ہماری بدنامی ہوئی تھی۔‘ 
ان کا کہنا تھا کہ ’امریکہ کو ڈاکٹر شکیل آفریدی میں دلچسپی ہے اس لیے پاکستان یہ موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دے گا۔ میرا خیال ہے کہ دو طرفہ مذاکرات یا ڈیل کے بعد ہی یہ مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے۔‘
واضح رہے کہ شکیل آفریدی کے پہلے وکیل ایڈووکیٹ سمیع اللہ آفریدی کو 17 مارچ 2015 کو پشاور میں قتل کر دیا گیا تھا جس کی ذمہ داری کالعدم تنظیم نے قبول کی تھی۔

شیئر: